نقطہ نظر

موسم سرما میں وادئ مہران کی سیر

سندھ، پنجاب اور بلوچستان جانے والے راستوں کے سنگم پر آباد ہونے کی وجہ سے اِس شہر کو تجارتی اہمیت بھی حاصل ہے۔

’موسم سرما میں وادئ مہران کی سیر‘

عُبیداللہ کیہر


ڈان بلاگز موسمِ سرما کی چھٹیوں میں سیر و تفریح کے حوالے سے اپنے قارئین کے لیے مکمل ٹؤر گائیڈ پیش کررہا ہے۔ یہ سیریز کا دوسرا بلاگ ہے، گزشتہ بلاگ یہاں پڑھیں۔ اس سیریز میں قارئین تک مکمل معلومات پہنچانے کی کوشش کی جائے گی کہ سردیوں میں پاکستان کے کن کن علاقوں میں جانا زیادہ بہتر رہے گا۔


صحرائے تھر

آئیں اب ہم صحرائے تھر چلتے ہیں۔ یہ صحرا صوبہ سندھ کے ضلع تھرپارکر کا حصہ ہے۔ یہ صحرا جغرافیائی طور پر ہندوستان اور پاکستان میں پھیلے ہوئے عظیم تھر ڈیزرٹ کا حصہ ہے، جو بھارت میں اَراوالی کے پہاڑی سلسلے سے لے کر جنوبی سمت میں بحیرہ عرب اور مغربی طرف سے وادئ سندھ کے درمیان 3 لاکھ مربع کلومیٹر کے وسیع رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔

سندھ کا صحرائے تھر اور پنجاب کا صحرائے چولستان، دونوں اِسی عظیم تھر کا حصہ ہیں۔ صوبہ سندھ میں صحرائے تھر کا رقبہ 20 ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ اِس خطے تک چونکہ کسی ندی یا دریا کا پانی نہیں پہنچتا اِس لیے اِس کی سرسبزی و زرخیزی کا انحصار صرف اور صرف بارشوں پر ہوتا ہے۔ بارش عام طور پر گرمیوں کے دنوں میں ہوتی ہیں اور بارش ہوتے ہی اِس کے نشیب و فراز اور اونچے نیچے ٹیلے سبزے کا لبادہ اوڑھ کر گل و گلزار ہوجاتے ہیں، لیکن یہ سرسبزی ایک محدود عرصے کے لیے ہوتی ہے، عام طور پر یہاں گرمی و خشک سالی کا ہی ڈیرہ ہوتا ہے۔ چنانچہ سکون و اطمینان کے ساتھ صحرائے تھر کی سیر کے لیے سردیوں کا موسم ہی بہتر ہوتا ہے۔

ایک تھری لڑکی —تصویر عبیداللہ کیہر

تھر کے مویشی —تصویر عبیداللہ کیہر

تھری خواتین —تصویر عبیداللہ کیہر

صحرائے تھر اپنی رنگا رنگ اور منفرد ثقافت کی وجہ سے ایک خاص رعنائی اور کشش رکھتا ہے۔ یہاں کے لوگ سادہ اور مہمان نواز ہیں۔ تھر کا مرکز مٹھی شہر ہے جوکہ ریت کے بلند و بالا ٹیلوں میں گِھرا ہوا ایک پیالے کی مانند نظر آتا ہے۔ رات کے وقت اگر اِن ٹیلوں کی بلندی پر چڑھ کر شہر کا نظارہ کیا جائے تو یوں لگتا ہے جیسے آسمان کے سارے ستارے اور سیارے زمین پر آکر بِچھ گئے ہیں۔

صحرائے تھر کے جنگل، ریت کے ٹیلے، دلدلی زمینیں اور نمکین جھیلیں دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔ تھر زیادہ تر چھوٹے چھوٹے گاؤں دیہاتوں پر مشتمل ہے جو اِس پورے صحرا میں دور دور فاصلوں پر آباد ہیں۔ اِن دیہاتوں کے درمیانی جنگلوں اور بیابانوں میں سیاحوں کو خاموشی اور سکون کے ایسے انوکھے لمحات میسر آتے ہیں کہ جن کا شہری مشینی زندگی گزارنے والے تصور بھی نہیں کرسکتے۔

تھر میں جہاں آپ کو اونچے سینگوں والے بیل، بھیڑ بکریوں کے ریوڑ اور اونٹوں کی قطاریں نظر آئیں گی، وہاں جا بجا دلکش و رنگا رنگ مور بھی اُڑتے پھرتے اور ناچتے دکھائی دیں گے۔ قسم قسم کے صحرائی پرندے، ہرن، گیدڑ اور کہیں کہیں تو صحرائی ریت پر سرسراتے سانپ بھی نظر آجاتے ہیں۔ اِن یادگار مناظر کے ساتھ ساتھ تھرپارکر ضلع میں کئی تاریخی مقامات بھی موجود ہیں۔

تھرپارکر کا صدر مقام مٹھی کراچی سے کم و بیش 300 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور یہاں تک آنے کے لیے ایک سے زیادہ راستے ہیں۔ ایک راستہ کراچی سے ٹھٹھہ، سجاول اور بدین سے ہوتا ہوا مٹھی آتا ہے۔ دوسرا حیدرآباد، ٹنڈو محمد خان، تلہار اور بدین سے ہوتا ہوا مٹھی پہنچتا ہے، جبکہ تیسرا راستہ حیدرآباد، ٹنڈو جام، ٹنڈو الہ یار، میرپور خاص، ڈگری، ٹنڈو جان محمد، جھڈو اور نوکوٹ سے ہوتا ہوا مٹھی آتا ہے۔

قلعہ نوکوٹ—تصویر عبیداللہ کیہر

نوکوٹ قلعہ —تصویر عبیداللہ کیہر

تھر کے خطے اور بقیہ سندھ میں بنیادی فرق نہری پانی کی موجودگی و غیر موجودگی کا ہے۔ اِس لحاظ سے دیکھا جائے تو صحرائے تھر کا پہلا مقام نوکوٹ ہے جہاں نہری زمینوں کا اختتام ہوجاتا ہے۔ یہاں سڑک کے ساتھ ایستادہ 200 سال قدیم بلند و بالا قلعہ نوکوٹ سیاحوں کا استقبال کرتا ہے اور مزید آگے بڑھتے ہی سڑک صحرائی ٹیلوں کے نشیب و فراز میں لہراتی بل کھاتی ہوئی چلنے لگتی ہے۔

سڑک کے اطراف میں جنگل، بیاباں اور ریت کے ٹیلوں کے ساتھ ساتھ کئی چھوٹے چھوٹے گاؤں بھی دیکھنے کو ملیں گے، جن میں دلکش اور انوکھی ساخت والے مخروطی جھونپڑے، جسے مقامی زبان میں ’چونرا‘ کہتے ہیں، دیکھ کر آپ حیران رہ جائیں گے۔

تھر کا جھونپڑا چونرا —تصویر عبیداللہ کیہر

تھری جھونپڑے—تصویر عبیداللہ کیہر

تھر کی سواری کھیکھڑا—تصویر عبیداللہ کیہر

سڑک پر آپ کو جگہ جگہ تھر کی قدیم اور عجیب الخلقت سواری ’کھیکھڑا‘ بھی ملے گی، جس پر انسان، مویشی اور ساز و سامان ایک ساتھ سفر کرتے ہیں۔ مٹھی نوکوٹ سے 40 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے چنانچہ آپ کچھ ہی دیر میں مٹھی پہنچ جاتے ہیں۔

مٹھی میں رہائش کے لیے کئی ہوٹلز اور گیسٹ ہاؤسز موجود ہیں، خصوصاً تھرکول منصوبے پر کام شروع ہونے کے بعد یہاں خاصی ترقی ہوئی ہے اور اب سیاحوں کے لیے بہتر انتظامات کیے گئے ہیں۔ مٹھی کو بیس کیمپ بناکر آپ ننگر پارکر، اسلام کوٹ، چھاچھرو، عمر کوٹ، ڈیپلو اور دیگر قصبوں اور دیہاتوں کی سیر بھی کرسکتے ہیں۔

کارونجھر پہاڑ —تصویر عبیداللہ کیہر

ننگر پارکر میں کارونجھر پہاڑ—تصویر عبیداللہ کیہر

ننگر پارکر روڈ—تصویر عبیداللہ کیہر

خصوصاً ننگر پارکر کا 700 سالہ قدیم گوڑی مندر، پاک بھارت سرحد پر گرینائٹ کا پہاڑ کارونجھر، ننگر پارکر کے تاریخی تالاب بھوڈیسر کی 600 سالہ قدیم مسجد اور عمر کوٹ میں عمر کا قلعہ اور شہنشاہ اکبر کی جائے پیدائش دیکھ سکتے ہیں۔

قلعہ رنی کوٹ

رنی کوٹ کا مشہور تاریخی قلعہ کراچی سے تقریباً 250 کلومیٹر دور ضلع جامشورو میں واقع ہے۔

قلعے کی 30 کلومیٹر طویل چوڑی فصیل کی وجہ سے اِسے ’عظیم دیوارِ سندھ‘ بھی کہتے ہیں۔ یہ قلعہ اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو کے تحت عالمی ثقافتی ورثے میں بھی شامل ہے۔ کراچی سے رنی کوٹ جانے کے لیے سپر ہائی وے کے ذریعے پہلے جام شورو تک آتے ہیں اور پھر انڈس ہائی وے پر سیہون کی طرف چلتے ہوئے ’سَن‘ کے مقام پر مین روڈ سے بائیں طرف کھیرتھر نیشنل پارک کے خطے میں داخل ہوجاتے ہیں۔ رنی کوٹ، سَن سے 20 کلومیٹر دور ہے۔

رنی کوٹ قلعہ—تصویر وکی پیڈیا

سینکڑوں سال قدیم اِس قلعے کی مستند تاریخ کسی کو بھی نہیں معلوم البتہ قیاس آرائیاں ہیں کہ یہ 400 سال پہلے تعمیر کیا گیا تھا اور پھر 19ویں صدی کے شروع میں تالپوروں نے اِس کی مرمت کروائی تھی۔ کھیرتھر کے خشک پہاڑوں کے پسِ منظر کے ساتھ اِس قلعے کی بلند و بالا پُراسرار دیواروں میں آپ صدیوں پُرانی سرگوشیاں سنتے ہوئے اچھی فوٹوگرافی بھی کرسکتے ہیں۔

منچھر جھیل

منچھر جھیل کراچی سے تقریباً 300 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ جامشورو تک سپر ہائی وے پر سفر کرنے کے بعد آپ سیہون تک انڈس ہائی وے پرسفر کرتے ہیں۔ انڈس ہائی وے جامشورو سے شروع ہوتی ہے اور مستقل دریائے سندھ کے مغربی کنارے کے ساتھ ساتھ صوبہ پنجاب سے گزرتی ہوئی صوبہ خیبر پختونخوا تک چلی جاتی ہے۔ سیہون کے قریب بائیں ہاتھ پر کوہِ کھیر تھر کا خشک پہاڑی سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔

سیہون سے 15 کلومیٹر مزید آگے سفر کریں تو انڈس ہائی وے کے بائیں طرف منچھر جھیل کے کنارے پہنچ جاتے ہیں۔ کھیر تھر کے خشک پہاڑوں اور بیابانوں سے گزر کر لوگ جب اچانک اپنے سامنے نیلگوں میٹھے پانی کا اتنا وسیع پھیلاؤ دیکھتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں۔ سردیوں میں اِس جھیل کا رقبہ ساڑھے 3 سو مربع کلومیڑ ہوتا ہے جبکہ گرمیوں میں یہ ساڑھے 5 سو مربع کلو میٹر تک پھیل جاتی ہے۔

منچھر جھیل —فوٹو عبیداللہ کیہر

کھیرتھر کے پہاڑوں سے بہہ کر آنے والے ندی نالوں کا پانی اِس جھیل میں جمع ہوتا ہے اور دریائے سندھ کا سیلابی پانی بھی اِس کا حصہ بنتا ہے۔ منچھر جھیل میں مچھلیوں کی بھی کئی اقسام پائی جاتی ہیں اور یہ طرح طرح کے پرندوں کا بھی مسکن ہے۔ سردیوں میں سائیبریا سے آنے والے ہزاروں پرندے بھی اِس جھیل پر اترتے ہیں۔ جھیل کے اندر مچھیروں نے کشتیوں پر ہی لاتعداد تیرتے گاؤں بسا رکھے ہیں اور اِن کی زندگی اِسی طرح پانی پر تیرتے ہوئے گزرتی ہے۔ منچھر جھیل پکنک منانے اور نیچر فوٹوگرافی کے لیے ایک آئیڈیل مقام ہے۔

گورکھ ہِل اسٹیشن

کراچی سے 400 کلو میٹر کے فاصلے پر ضلع دادو میں واقع گورکھ ہِل اسٹیشن کو صوبہءِ سندھ کے بلند اور سرد ترین مقام کا درجہ حاصل ہے۔ یہاں سیاح عام طور پر گرم موسم میں سرد ہواؤں کا مزا لینے آتے ہیں، جبکہ سردیوں میں یہاں اکثر برفباری کا بھی امکان ہوتا ہے۔ اپنی بلندی اور ٹھنڈ کی وجہ سے اِسے سندھ کا مری بھی کہا جاتا ہے۔ دسمبر اور جنوری کے مہینوں میں یہاں رات کا درجہ حرارت منفی دس ڈگری تک بھی گرجاتا ہے۔

سطح سمندر سے تقریباً 6 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع گورکھ ہِل کھیرتھر کے پہاڑی سلسلے میں واقع ہے۔ یہ پہاڑ صوبہ بلوچستان اور صوبہ سندھ کے درمیان حد بندی کا کام کرتے ہیں۔ کراچی سے 300 کلومیٹر کا سفر کرکے دادو شہر پہنچیں تو یہاں سے گورکھ ہِل تقریباً سو کلومیٹر دور رہ جاتا ہے۔ دادو سے جوہی اور واہی پاندھی کے قصبوں تک تو اچھی سڑک ہے لیکن یہاں سے آگے گورکھ ہِل تک پہنچنے کے لیے ایک دشوار گزار پہاڑی سڑک ہے جس پر صرف فوروہیل جیپیں ہی آسانی سے سفر کرسکتی ہیں۔

پہاڑی سڑک کے اطراف کہیں کہیں چھوٹے چھوٹے گاؤں نظر آتے ہیں جبکہ زیادہ تر ویرانیوں کا بسیرہ ہے۔ ہزاروں فُٹ بلند اِس پہاڑی اسٹیشن سے سورج کے طلوع اور غروب کے بہترین اور انوکھے نظارے کیے جاسکتے ہیں۔ نیچر فوٹوگرافی کرنے والوں کے لیے یہ ایک منفرد مقام ہے۔ یہاں ہوٹل، ریسٹورنٹ، گیسٹ ہاؤس اور کیمپنگ سائٹ جیسی سہولیات بھی موجود ہیں لیکن یہ سہولیات ابھی بھرپور انداز میں دستیاب نہیں اِس لیے لوگ ایک ہی دن میں یہاں سیر کرکے واپس چلے آنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

لاڑکانہ میں موئن جو دڑو کے آثارِ قدیمہ

سندھ کا ایک عالمی شہرت یافتہ قابلِ دید تاریخی مقام ’موئن جو دڑو‘ بھی ہے۔ یہ تاریخی قدیم مقام بذریعہ انڈس ہائی وے کراچی سے 400 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ کراچی سے جامشورو، سیہون، دادو اور میہڑ سے ہوتے ہوئے 7 گھنٹے کا سفر کرکے آپ موئن جو دڑو پہنچ سکتے ہیں۔

موئن جو دڑو وادئ سندھ کی 5 ہزار سالہ قدیم تہذیب کا مرکز ہے۔ یہ شہر 1700ء قبل مسیح میں نہ معلوم وجوہات کے باعث تباہ ہوگیا۔ ماہرین کی قیاس آرائیوں کے مطابق اِس کی وجوہات دریائے سندھ کے رخ میں تبدیلی، سیلاب، زلزلہ یا کوئی بیرونی حملہ ہوسکتی ہیں۔ موئن جو دڑو کے کھنڈرات 1922ء میں انگریز ماہر آثارِ قدیمہ ’سر جان مارشل‘ نے دریافت کیے تھے، مگر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اِسے برِصغیر کے ماہر آثارِ قدیمہ ’آر کے بھنڈر‘ نے 1911ء میں ہی دریافت کرلیا تھا اور اُنہوں نے اِس جگہ کو تاریخِ بدھ مت کا ایک اہم مقام سمجھتے ہوئے ماہرین کی توجہ اِس جانب مبذول کروائی تھی۔ چنانچہ اِس دریافت کے تقریباً 10 سال بعد سر جان مارشل نے اِس جگہ کھدائی شروع کروائی۔

موئن جو دڑو — عبیداللہ کیہر

موئن جو دڑو سندھی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ’مردہ لوگوں کا ٹیلہ‘ ہے۔ یہ بڑی ترتیب سے بسا ہوا شہر تھا۔ اِس کی گلیاں کشادہ اور سیدھی ہیں اور یہاں نکاس آب کا بھی مناسب انتظام ہوا کرتا تھا۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو نے اِس شہر کو عالمی ورثہ قرار دیا ہے۔ موئن جو دڑو کے کھنڈرات 1922ء میں دریافت ہوئے تھے۔ ہزاروں سال قدیم ہونے کے باوجود آپ موہن جو دڑو کے پکے مکانات، پُختہ سڑکیں، گلیاں اور بازار دیکھ کر حیران رہ جائیں گے اور سوچ میں پڑجائیں گے کہ کس طرح ہزاروں سال قبل یہ تہذیب اِس قدر عروج پر تھی۔

شکارپور

نیشنل ہائی وے اور انڈس ہائی وے پاکستان کی دو اہم سڑکیں ہیں۔ نیشنل ہائی وے، جسے کے ایل پی (KLP) یعنی ’کراچی-لاہور-پشاور‘ روڈ بھی کہا جاتا ہے، کراچی سے براستہ حیدرآباد، روہڑی، صادق آباد اور مُلتان سے ہوتی ہوئی لاہور تک آکر جی ٹی روڈ سے مل جاتی ہے اور پھر جہلم و راولپنڈی سے ہوتی ہوئی پشاور پہنچ جاتی ہے، جبکہ انڈس ہائی وے کراچی سے براستہ جامشورو، سیہون، دادو، لاڑکانہ اور شکارپور ہوتی ہوئی کشمور میں پنجاب میں داخل ہوجاتی ہے۔ یہاں یہ راجن پور اور ڈیرہ غازی خان سے گزرنے کے بعد صوبہ خیبر پختونخوا میں ڈیرہ اسماعیل خان پہنچتی ہے اور آگے پشاور تک چلی جاتی ہے۔ یہ سڑک چونکہ زیادہ تر دریائے سندھ کے متوازی چلتی ہے اِس لیے اِسے انڈس ہائی وے کا نام دیا گیا ہے۔

نیشنل ہائی وے سے روہڑی کے قریب ایک سڑک نکلتی ہے جو سکھر بیراج کے پاس دریائے سندھ کو عبور کرتی ہے اور پھر انڈس ہائی وے کو کراس کرتی ہوئی جیکب آباد اور سبی سے ہوتی ہوئی کوئٹہ چلی جاتی ہے، اِسی مناسبت سے اِس سڑک کو کوئٹہ روڈ کہا جاتا ہے۔ کوئٹہ روڈ جس مقام پر انڈس ہائی وے کو کراس کرتا ہے، وہ سندھ کا قدیم شہر ’شکارپور‘ ہے۔ یعنی یہ شہر دو ایسی قومی شاہراہوں کا مقامِ اتصال ہے کہ جن پر سفر کرکے آپ پاکستان کے تمام شہروں کی طرف جاسکتے ہیں۔ چنانچہ شکارپور کو بجا طور پر ’پاکستان چوک’ کہا جا سکتا ہے۔ اپنے اِسی اہم محلِ وقوع کے باعث یہ شکارپور ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔

شکارپور کراچی سے تقریباً 500 کلو میٹر دور ہے۔ قدیم شکارپور مٹی کی ایک مضبوط فصیل کے اندر آباد تھا اور اِس دیوار میں 8 دروازے ہوا کرتے تھے۔ اِن آٹھ دروازوں پر مختلف شہروں سے آنے والی جن سڑکوں کا اختتام ہوتا تھا، اُن دروازوں کے نام اُنہی شہروں کی نسبت سے رکھے گئے تھے۔ اب وہ دروازے تو موجود نہیں البتہ اُن کے نام پر آباد مُحلے آج بھی موجود ہیں۔

شکارپوری اچار —تصویر عبیداللہ کیہر

اِن محلوں میں ’لکھی در‘ کو شہر کے قلب کی حیثیت حاصل ہے۔ شکارپور کے تمام بازاروں کی گلیاں اور شہر کی ہر سڑک یہیں لکھی در میں ختم ہوتی ہیں۔ یہاں انگریزوں کے دور میں قائم کردہ ایک سو سالہ قدیم گھنٹہ گھر ایستادہ ہے جو شہر کی تمام گہما گہمیوں کا محور و مرکز ہے۔ لکھی در کے محرابی گیٹ میں داخل ہوکر ذرا آگے بڑھیں تو ’ڈھک بازار‘ شروع ہوجاتا ہے۔ لکڑی کی چھت سے ڈھکا ہوا ایک سرنگ کی مانند یہ بازار نصف میل طویل ہے اور چھت کی وجہ سے یہ گرمیوں میں بھی ٹھنڈا رہتا ہے۔

شکارپور گھنٹہ گھر —تصویر عبیداللہ کیہر

شکارپور اپنے اچار، چٹنیوں، مربّہ جات اور مٹھائیوں کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے۔ تیل اور سِرکے میں تیار کردہ شکارپوری اچار اپنے ذائقے میں مختلف اور منفرد ہوتا ہے۔ اِسی طرح شکارپور کی مٹھائیاں بھی ملک بھر میں پسند کی جاتی ہیں۔ گرمیوں میں یہاں کی قلفی اور فالودہ بھی شوق سے کھایا جاتا ہے۔ آپ شکارپور میں کچھ دیر وقفہ کرکے اِس کے کوچہ و بازار کی سیر بھی کرسکتے ہیں اور یہاں کی خوش ذائقہ اشیائے خورد و نوش سے بھی لطف اندوز ہوسکتے ہیں یا پھر شکارپور کا اچار، مربّے، چٹنیاں اور مٹھائی سوغات کے طور پر اپنے ساتھ بھی لے جا سکتے ہیں۔

سکھر، روہڑی اور دریائے سندھ

سندھ، پنجاب اور بلوچستان جانے والے راستوں کے سنگم پر آباد ہونے کی وجہ سے اِس شہر کو تجارتی اہمیت بھی حاصل ہے۔ دریائے سندھ کے کنارے آباد شہر سکھر صوبہ سندھ کا تیسرا بڑا شہر ہے۔ اگر آپ کراچی سے نیشنل ہائی وے کے راستے سکھر آئیں گے تو حیدرآباد، مورو، رانی پور اور خیرپور سے ہوتے ہوئے تقریباً 8 گھنٹے میں سکھر پہنچ سکتے ہیں، لیکن اگر آپ انڈس ہائی وے سے موئن جو دڑو، لاڑکانہ کے راستے سکھر آرہے ہیں تو شکارپور کی سیر بھی کرسکتے ہیں۔ سکھر اور شکارپور کے درمیان گھنٹے بھر کا فاصلہ ہے۔ سکھر صوبہ سندھ کا تیسرا بڑا شہر ہے۔ اِس کو سندھی زبان میں ’دریا ڈنو‘ یعنی دریا کا تحفہ بھی کہا جاتا ہے۔

یہاں کئی ہوٹل ہیں اور دیگر بنیادی سہولیات بھی موجود ہیں۔ شہر کا مرکز اِس کا گھنٹہ گھر چوک ہے اور سارے بازار اِسی چوک سے شروع ہوتے ہیں۔ دریائے سندھ شہر کے شمال مغربی حصے میں سکھر اور روہڑی کے درمیان بہتا ہے۔ یہاں دریا کے وسیع پاٹ کے درمیان میں بکھر، سادھ بیلو اور خواجہ خضر نامی 3 خوبصورت جزیرے بھی قابلِ دید مقامات ہیں۔

سکھر کی علامت معصوم شاہ کا مینار ہے۔ 100 فٹ بلند یہ مینار 400 سال پہلے مغل شہنشاہ اکبر کے دور میں سکھر کے گورنر اور معروف تاریخ دان معصوم شاہ بکھری نے تعمیر کروایا تھا۔ یہ مینار سکھر میں ایک بلند جگہ پر تعمیر کروایا تھا تاکہ اِس پر کھڑے ہوکر سکھر شہر اور دریائے سندھ کے جزیروں کا جائزہ لینے میں آسانی ہو۔ بلندی پر ہونے کی وجہ سے یہ مینار آج بھی دور سے ہی نظر آجاتا ہے۔

سکھر کی پہچان ’سکھر بیراج‘ بھی ہے جو پاکستان کے نہری آبپاشی نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ سکھر بیراج 66 دروازوں پر مشتمل ہے اور یہاں دریائے سندھ میں سے 7 نہریں نکالی گئی ہیں۔ سکھر بیراج کے ساتھ مشہور باغ ’لبِ مہران‘ واقع ہے جہاں دریا کنارے دن گزارا جاسکتا ہے۔ کشتیوں میں بیٹھ کر دریائے سندھ، سکھر بیراج اور جزیروں کی سیر کی جاسکتی ہے۔

دریائے سندھ کو عبور کریں تو دوسری طرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر روہڑی شہر ہے۔ روہڑی جانے کے لیے لوگ عام طور ’لینس ڈاؤن بِرج‘ سے دریا کو عبور کرتے ہیں۔ روہڑی دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر سکھر کے سامنے واقع ہے۔ روہڑی کے مغرب میں کھجور کے گھنے باغات اور شمال میں صحرا ہے۔ روہڑی سندھ کا ایک نسبتاً چھوٹا شہر ہے، لیکن ریلوے کا ایک بڑا جنکشن ہونے کی وجہ سے خاص اہمیت رکھتا ہے۔

سکھر بیراج —تصویر عبیداللہ کیہر

لینس ڈاؤن برج سکھر—تصویر عبیداللہ کیہر

یہاں لاہور جانے والی مین لائن سے بلوچستان کی لائن الگ ہوتی ہے جو دریائے سندھ کو آہنی پل ’لینس ڈاؤن برج‘ سے عبور کرکے سکھر میں داخل ہوتی ہے اور پھر آگے بڑھتے ہوئے شکارپور، جیکب آباد اور سبّی سے ہوتی ہوئی کوئٹہ چلی جاتی ہے۔ کراچی سے لاہور جانے والی ریلوے لائن بھی روہڑی سے گزرتی ہے اور آگے گھوٹکی سے ہوتی ہوئی بذریعہ صادق آباد، پنجاب میں داخل ہوتی ہے اور پھر بہاول پور، ملتان، خانیوال اور ساہیوال سے ہوتی ہوئی لاہور تک چلی جاتی ہے۔ روہڑی کراچی کو لاہور اور پشاور سے ملانے والی قومی شاہراہ سے بھی متصل ہے۔

دریائے سندھ کا ’لینس ڈاؤن برج‘ 19ویں صدی کی انجینئرنگ کا ایک شکاہ کار ہے۔ یہ پل 1887ء میں تعمیر کیا گیا۔ لاہور سے سکھر تک ریلوے لائن 1879ء میں بچھائی جاچکی تھی مگر روہڑی اور سکھر کے درمیان ریل کی بوگیوں کو ایک اسٹیم فیری کے ذریعے دریائے سندھ عبور کروایا جاتا تھا۔ یہ فیری ایک وقت میں صرف آٹھ بوگیوں کو لے جاسکتی تھی اور اِس عمل میں بہت وقت ضائع ہوتا تھا۔ چنانچہ 1887ء میں یہ پُل تعمیر کیا گیا۔ اِس کا افتتاح ’وائسرائے ہند لارڈ لینس ڈاؤن‘ نے کیا تھا اِس لیے اِس کا نام بھی لینس ڈاؤن برج رکھا گیا۔ پل کے شروع ہوتے ہی فیری سروس کا اختتام ہوگیا۔


عبیداللہ کیہر پیشے کے لحاظ سے میکینیکل انجینیئر، مگر ساتھ ہی سیاح، سفرنامہ نگار، پروفیشنل فوٹوگرافر اور ڈاکومنٹری فلم میکر ہیں۔ آپ کی اب تک 7 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آبائی تعلق سندھ کے شہر جیکب آباد سے ہیں۔ عمر کا غالب حصہ کراچی میں گزارا اور اب اسلام آباد میں رہتے ہیں.


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

عبیداللہ کیہر

عبیداللہ کیہر پیشے کے لحاظ سے میکینیکل انجینیئر، مگر ساتھ ہی سیاح، سفرنامہ نگار، پروفیشنل فوٹوگرافر اور ڈاکومنٹری فلم میکر ہیں۔ آپ کی اب تک 15 کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ آبائی تعلق سندھ کے شہر جیکب آباد سے ہیں۔ عمر کا غالب حصہ کراچی میں گزارا اور اب اسلام آباد میں رہتے ہیں ۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔