پاکستان

فوجی حکام کی سینیٹرز کو 4 گھنٹے طویل اِن کیمرا بریفنگ

جنرل قمرجاوید باجوہ، ڈی جی آئی ایس آئی اورڈی جی ایم او،ڈی جی آئی ایس پی آرسمیت متعدداعلیٰ فوجی حکام سینیٹ پہنچے تھے۔
|

اسلام آباد: پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ ملک کی سیکیورٹی صورت حال اور خطے کے حوالے سے پاکستان کو درپیش مسائل پر سینیٹ کے مکمل ایوان پر مشتمل کمیٹی کے اجلاس میں بریفنگ دینے کے لیے پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے اور 4 گھنٹے طویل بریفنگ دی۔

ذرائع نے ڈان نیوز کو بتایا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سینیٹ کے ارکان کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ’میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ پارلیمنٹ کی ایک اہم کمیٹی میں شریک ہوا ہوں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ بعض اہم ممالک کے دورے فوجی سفارتکاری کا حصہ ہیں اور علاقائی ممالک سے تعلقات میں بہتری کے لیے آرمی چیف کے دورے معاون ثابت ہوئے۔

ذرائع کے مطابق ارکان سینیٹ نے آرمی چیف سے فیض آباد دھرنے سے متعلق بھی سوالات کیے۔

سوالات کے بعد آرمی چیف نے فیض آباد دھرنے سے متعلق ایوان کو آگاہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ ’فیض آباد کا دھرنا ملکی مفاد کی خاطر ختم کرانے میں کردار ادا کیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پولیس آپریشن سے حالات سدھرنے کی بجائے مزید خراب ہوئے، آپریشن کے بعد ملک بھر میں دھرنے شروع ہوگئے، ایسی صورتحال میں فوج دھرنا شرکاء کے خلاف کوئی ایکشن لیتی تو حالات مزید خراب ہوتے۔‘

تاہم انہوں نے کہا کہ حکومت اور دھرنا شرکاء کے درمیان ہونے والے معاہدے پر ڈی جی رینجرز کو دستخط نہیں کرنے چاہیے تھے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے کمیٹی کو اسلامی فوجی اتحاد سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ’اسلامی فوجی اتحاد سعودی عرب نے قائم کیا ہے جو کسی ملک کے خلاف نہیں بلکہ یہ اتحاد سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے میں مثبت کردار ادا کر سکتا ہے، تاہم ہم کسی ملک کے فریق نہیں بنیں گے بلکہ ایک پُل کا کردار ادا کریں گے۔‘

سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی اتحاد کے بطور کمانڈر تقرری سے متعلق انہوں نے کہا کہ ’راحیل شریف ریٹائرڈ جنرل تھے اور سعودی عرب نے راحیل شریف کی خدمات لینے کے لیے درخواست کی تھی۔‘

آرمی چیف نے پاکستان میں بھارتی مداخلت سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ’بھارت کی پاکستان میں مداخلت جاری ہے بالخصوص بلوچستان میں اس کی مداخلت کے واضح ثبوت ہیں، جبکہ بھارت نے افغانستان میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’بھارت، امریکا کی منشاء کے مطابق زبان استعمال کر رہا ہے۔‘

ذرائع نے کہا کہ اجلاس میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کا معاملہ بھی زیر غور آیا۔

ذرائع کے مطابق آرمی چیف کا کہنا تھا کہ خطے کی جیو اسٹریٹجک صورتحال پر گہری نظر ہے، افغانستان میں ہونے والی تبدیلیوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔

بریفنگ کے دوران ان کا کہنا تھا کہ بارڈر مینجمنٹ پاک-افغان سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے ناگزیر ہے۔

فوجی عدالتیں

ذرائع نے ڈان نیوز کو بتایا کہ بریفنگ کے دوران فوجی حکام نے سینیٹ ارکان کو بتایا کہ 2015 میں فوجی عدالتوں کی بحالی کے بعد مذکورہ عدالتوں نے اب تک 274 مقدمات کا فیصلہ کیا۔

بریفنگ کے دوران بتایا گیا کہ ان مقدمات میں 161 مجرموں کو سزائے موت سنائی گئی جبکہ 56 مجرموں کو پھانسی دی گئی۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ فوجی حکام نے بریفنگ کے دوران بتایا کہ 13 مجرموں کو آپریشن رد الفساد سے قبل اور 43 کو آپریشن کے آغاز کے بعد پھانسی دی گئی۔

بریفنگ میں بتایا گیا کہ 7 جنوری کو فوجی عدالتوں کی مدت ختم ہونے پر مقدمات پر کارروائی روک دی گئی تھی بعد ازاں 28 مارچ کو فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کی گئی۔

ذرائع کے مطابق فوجی حکام نے سینیٹرز کو بتایا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے آرمی چیف بننے کے بعد فوجی عدالتوں کو 160 مقدمات بھیجوائے گئے، جن میں سے 33 پر فیصلہ سنایا گیا، 8 کو سزائے موت اور 25 کو قید کی سزائی دی گئی جبکہ 120 مقدمات 19 نومبر 2017 کو فوجی عدالتوں میں بھیجوائے گئے۔

آپریشن رد الفساد

ذرائع کے مطابق سینیٹ ارکان کو بریفنگ دیتے ہوئے فوجی حکام نے بتایا کہ آپریشن رد الفساد کے تحت اب تک خیبر پختونخوا اور فاٹا میں 1249 کومبنگ اور انٹیلی جنس بیس آپریشن کئے گئے، پنجاب میں 13011 کاروائیاں کی گئی، بلوچستان میں 1410 اور سندھ میں 2015 آپریشنز کئے گئے۔

ذرائع کے مطابق پنجاب میں7 اہم آپریشن جبکہ بلوچستان میں 29 اہم آپیشنز کئے گئے، سندھ میں 2 ، خیبر پختونخوا اور فاٹا میں 31 اہم آپریشنز کئے گئے، مجموعی طور پر آپریشن رد الفساد کے دوران 69 اہم آپریشنز کئے گئے۔

بریفنگ میں بتایا گیا کہ انٹیلی جنس اطلاعات پر مجموعی طور پر 18001 کاروائیاں کی گئی اور4983 سرچ آپریشن کئے گئے، جن میں سے پنجاب میں 4156، بلوچستان میں 45، سندھ میں 224، خیبرپختونخوا اور فاٹا میں 558 سرچ کریشن کئے گئے جبکہ اس دوران مجموعی طور پر 19993 ہتھیار برآمد کیے گئے، جن میں پنجاب سے 2751، بلوچستان 2332، سندھ سے 1046، خیبر پختونخوا اور فاٹا سے 13864 ہتھیار بر آمد ہوئے۔

5 سال میں دہشت گردی کے 257 واقعات

ذرائع نے ڈان نیوز کو بتایا کہ فوجی حکام نے سینیٹ کی ہول کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ ملک بھر میں 2013 سے 2017 تک دہشت گردی کے 257 واقعات رونما ہوئے۔

فوجی حکام کے مطابق 2013 میں سب سے زیادہ دہشت گردی کے 90 واقعات رونما ہوئے جبکہ اپریل اور مئی میں سب سے زیادہ ناخوش گوار واقعات رونما ہوئے اور دونوں مہینوں میں 13، 13 دہشت گردی کے واقعات ہوئے۔

2014 کی بات کی جائے تو اس سال کا آغاز ہی دہشت گردی کے واقعات سے ہوا اور جنوری کے مہنے میں 13 واقعات رونما ہوئے جبکہ جون اور دسمبر میں 10، 10 دہشت گردوں کے واقعات ملک کے مختلف حصوں میں رونما ہوئے اور اس سال دہشت گردی کے کل 87 واقعات رونما ہوئے۔

2015 کی بات کی جائے تو اس میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی اور پورے سال میں 50 دہشت گردی کے واقعات ہوئے، جس میں سب سے زیادہ 6، 6 واقعات مئی اور جون میں رونما ہوئے۔

بریفنگ میں بتایا گیا کہ سیکیورٹی فورسز کی کامیاب کارروائیوں کے باعث سال 2016 میں دہشت گردی میں کافی کمی واقع ہوئی اور پورے سال میں دہشت گردی کے 14 واقعات رونما ہوئے، اس سال اپریل، مئی، جون اور جولائی میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا جبکہ اس سال سب سے زیادہ 3 واقعات جنوری، مارچ اور اکتوبر میں پیش آئے تھے۔

2017 میں جنوری سے اکتوبر تک کے اعداد و شمار کے مطابق 16 دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے، جس میں سب سے زیادہ واقعات فروری میں رونما ہوئے جن میں تعداد 3 رہی۔

کراچی آپریشن

فوجی حکام کے مطابق کراچی میں 5 ستمبر 2013 سے رینجرز کی جانب سے جاری آپریشن کے دوران 5 برس میں کل 11200 آپریشن کیے گئے، جس میں سے 2013 میں 1298 آپریشن، 2014 میں 3086، 2015 میں 2466 جبکہ 2016 میں 2022 اور 2017 میں اب تک 2328 آپریشن کیے گئے۔

ذرائع کے مطابق ان آپریشنز کے دوران کل 8780 افراد کو پولیس کے حوالے کیا گیا، جس میں 2013 میں 1264 افراد، 2014 میں 2358 افراد، 2015 میں 2181 افراد، 2016 میں 1207 جبکہ 2017 میں 1770 افراد کو پولیس کے حوالے کیا گیا، آپریشن کے دوران ان پانچ سالوں میں رینجرز نے 12 ہزار 105 ہتھیار برآمد کیے جبکہ سب سے زیادہ ہتھیار سال 2014 میں برآمد کیے گئے، جن کی تعداد 3946 تھی، اسی طرح 2013 میں 1917 ہتھیار، 2015 میں 2819، 2016 میں 1887 جبکہ 2017 میں 1536 ہتھیار برآمد کیے گئے۔

بریفنگ میں بتایا گیا کہ ان آپریشنز کے دوران 1948 دہشت گرد گرفتار کیے گئے، جس میں 2013 میں 51، 2014 میں 478، 2015 میں 614، 2016 میں 356 جبکہ 2017 میں 449 دہشت گردوں کو رینجرز نے گرفتار کیا، آپریشن کے دوران 1589 ٹارگٹ کلرز کو بھی گرفتار کیا گیا، جس میں سب سے زیادہ 2017 میں 520 ٹارگٹ کلرز پکڑے گئے، اس کے علاوہ 2013 میں 212، 2014 میں 214، 2015 میں 614 اور 2016 میں 356 ٹارگٹ کلر گرفتار کیے گئے۔

سینیٹرز کو بتایا گیا کہ کراچی آپریشن کے دوران 601 بھتہ خور گرفتار کیے گئے، سب سے زیادہ 167 بھتہ خوروں کو 2013 میں گرفتار کیا گیا، اس کے علاوہ 2014 میں 97، 2015 میں 99، 2016 میں 77 اور 2017 میں 161 بھتہ خوروں کو گرفتار کیا گیا۔

ان 5 برسوں میں 154 اغوا برائے تاوان کے ملزموں کو بھی گرفتار کیا گیا، ان ملزمان میں 2013 میں 14، 2014 میں 27، 2015 میں 49 اور 2016 میں 28 شامل ہیں جبکہ 2017 میں 36 اغوا کاروں کو گرفتار کیا گیا، آپریشن کے دوران 154 مغویوں کو اغوا کاروں سے بازیاب کرایا گیا، جن میں 2015 میں سب سے زیادہ 103 مغوی بازیاب کرائے گئے جبکہ 2013 میں 10، 2014 میں 25، 2016 میں 13 اور 2017 میں 3 مغوی بازیاب کرائے گئے۔

آپریشن میں 24 رینجرز جوانوں کی شہادت

بریفنگ کے دوران فوجی حکام نے سینیٹرز کو بتایا کہ کراچی آپریشن کے دوران 5 سال میں 24 رینجرز کے جوان شہید ہوئے، آپریشن کے آغاز میں سال 2013 میں 3 جوان، 2014 میں 13، 2015 میں 8 جبکہ 2016 اور 2017 میں کوئی شہادت نہیں ہوئی، اس کے علاوہ ان آپریشنز میں 94 جوان مسلح مقابلوں میں زخمی بھی ہوئے، جن میں 2013 میں 17، 2014 میں 37، 2015 میں 23 اور 2016 میں 5 جبکہ 2017 میں 12 جوان زخمی ہوئے۔

ذرائع کے مطابق فوجی حکام نے بتایا کہ رینجرز کی جانب سے کیے گئے آپریشن کے بعد کراچی میں امن و امان کی صورتحال میں کافی بہتری آئی اور 2013 میں دہشت گردی کے 57 واقعات کے مقابلے میں 2017 میں صرف ایک واقعہ رونما ہوا، اس کے علاوہ 2014 میں 66 واقعات ہوئے جبکہ 2015 میں 18 اور 2016 میں یہ تعداد 16 رہی۔

آپریشن کے بعد ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں بھی کمی آئی، 2013 میں 965 واقعات رونما ہوئے جبکہ 2017 میں 46 واقعات، 2014 میں 602، 2015 میں 199، 2016 میں 89 ٹارگٹ کلنگ کے واقعات رونما ہوئے، اسی طرح 2013 میں بھتہ خوری کے سب سے زیادہ 1524 کیسز ریکارڈ ہوئے جبکہ 2014 میں 899، 2015 میں 303، 2016 میں 101 اور 2017 میں ان کی تعداد 48 ریکارڈ کی گئی۔

بریفنگ میں بتایا گیا کہ 2013 میں اغوا برائے تاوان کے 174 کیسز سامنے آئے، اس کے علاوہ 2014 میں 115، 2015 میں 37، 2016 میں 26 جبکہ 2017 میں 13 کیسز سامنے آئے۔

بعد ازاں 4 گھنٹے کی طویل بریفنگ کے اختتام کے بعد آرمی چیف قمر جاوید باجوہ پارلیمنٹ سے واپس روانہ ہوگئے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کی مختصر بات چیت

فوجی حکام کی جانب سے سینیٹرز کو ان کیمرا بریفنگ کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ سینیٹ میں آرمی چیف کی بریفنگ ان کیمرا تھی، جس میں ڈی جی ملٹری آپریشن نے قومی سلامتی پر بات کی۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ آئندہ کیا لائحہ عمل ہوگا اس پر بھی ڈی جی ایم او نے بریفنگ دی۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک مضبوط ملک ہے اور مل کر دشمن کے خلاف لڑیں گے جبکہ تمام سینیٹرز کے سوالات ملک کی بہتری کے لیے تھے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے طویل انتظار پر صحافیوں کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ ان کیمرا اجلاس تھا اس لیے ان کی تفصیلات اس طرح نہیں بتائی جاسکتی، ان کا کہنا تھا کہ تفصیلی بریفنگ آئندہ 3 سے 4 روز میں دی جائیں گی۔

فوجی حکام کی جانب سے سینیٹرز کو دی گئی بریفنگ کے حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ سینیٹ کی مجموعی کمیٹی کا اجلاس ان کمیرہ ہوا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بریفنگ ایک گھنٹے کی تھی جس کے بعد ساڑھے تین گھنٹے تک سوالات اور ان کے جوابات دیئے گئے۔

انہوں نے کہا کہ کچھ ممبران کے تحفظات عدم معلومات کی بنا پر تھے، جن کو آرمی چیف نے دور کرنے کی کوشش کی جبکہ سب ممبران ٹائم کم ہونے کی وجہ سے سوال نہیں کر سکے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ سینیٹرز نے آرمی چیف کے اپنی پوری ٹیم کو ہمراہ لانے پر خوشی کا اظہار کیا جبکہ ممبران سیکیورٹی صورت حال کے حوالے سے زیادہ باخبر تھے۔

علاوہ ازیں ذرائع نے ڈان نیوز کو بتایا کہ مذکورہ بریفنگ کے حوالے سے آئی ایس پی آر کچھ روز بعد میڈیا کو بریف کرے گا جبکہ اس سے قبل سینیٹ سیکریٹریٹ نے بتایا تھا کہ آرمی چیف کی بریفنگ کے فوری بعد آئی ایس پی آر میڈیا کو اجلاس کی کارروائی سے متعلق بریف کرے گا۔

اس سے قبل آرمی چیف کی آمد پر پارلیمنٹ ہاؤس میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مولانا عبدالغفور حیدری نے ان کا استقبال کیا، جس کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ نے چیئرمین سینیٹ رضا ربانی سے ان کے چیمبر میں ملاقات کی تھی۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پارلیمنٹ ہاؤس آرہے ہیں — فوٹو: ڈان نیوز

آرمی چیف کے ہمراہ ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) لیفٹننٹ جنرل نوید مختار بھی پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے تھے۔

جنرل قمر جاوید باجوہ کی آمد سے قبل ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشن ڈی جی ایم او جنرل ساحر شمشاد پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے تھے اور انہوں نے پارلیمنٹ میں انتظامات کا جائزہ لیا تھا۔

ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور سمیت پاک فوج کے متعدد اعلیٰ عہدیداران سینیٹ پہنچے جبکہ دوسری جانب آرمی چیف کی آمد سے قبل تمام سینیٹرز بھی مذکورہ بریفنگ میں شرکت کے لیے سینیٹ میں موجود تھے۔

اس موقع پر آرمی چیف کی جانب سے سینیٹ کی ہول کمیٹی کو ان کیمرا بریفنگ دیئے جانے کے حوالے سے تمام تیاریاں مکمل کرلی گئی تھیں۔

مزید پڑھیں: سیکیورٹی صورتحال پر آرمی چیف سینیٹ کمیٹی کو بریفنگ دیں گے

خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے سینیٹ سیکریٹریٹ کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ پاکستان سمیت خطے کی سیکیورٹی صورتحال کے حوالے سے براہِ راست پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کے لیے سینیٹ کمیٹی کو بریفنگ دیں گے۔

بیان میں کہا گیا تھا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ 19 دسمبر کو سینیٹ کی ہول ہاؤس کمیٹی کو ان کیمرا بریفنگ دیں گے، یہ بریفنگ صبح 10 بجے سینیٹ ہال میں دی جائے گی جس میں آرمی چیف کے ہمراہ ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشن (ڈی جی ایم او) میجر جنرل ساحر شمشاد مرزا بھی موجود ہوں گے۔

مزید پڑھیں: سینیٹرز کا اسلامی فوجی اتحاد کے ٹی او آرز پیش کرنے کا مطالبہ

پاک فوج کے سربراہ خطے کی صورتحال کے حوالے سے بریفنگ دیں گے جبکہ پاک امریکا تعلقات اور اس کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے سینیٹ کی ہول ہاؤس کمیٹی کو اعتماد میں لیں گے۔

خیال رہے کہ جمعہ (15 دسمبر) کو بھی سینیٹرز کی جانب سے سعودی سربراہی میں قائم ہونے والی 41 ملکی فوجی اتحاد آئی ایم سی ٹی سی کے ٹرمز آف ریفرنسز (ٹی او آر) کو خفیہ رکھنے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔

سینیٹ اجلاس میں تحریک التوا پر بحث کرتے ہوئے فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پارلیمنٹ اور وزارت خارجہ اسلامی فوجی اتحاد کے ٹرمز آف ریفرنس سے مکمل طور پر لاعلم ہیں اور حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کو نہ ہی ٹی او آر پر اعتماد میں لیا گیا اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی معلومات دی گئیں۔

یہ بھی پڑھیں: سینیٹ کمیٹی میں امریکی فیصلے کے خلاف متفقہ قرارداد منظور

انہوں نے کہا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایران کا دورہ کیا اور اس دوران کیا معاملات طے پائے، اس حوالے سے پارلیمنٹ کو معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔

سینیٹرز کی جانب سے یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ انہیں آئی ایم سی ٹی سی کے ٹی او آر اور جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورہ ایران کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کیا جائے۔