اسٹیبلشمنٹ تنہا ملک کو بحران سے نہیں نکال سکتی: محمود خان اچکزئی
مینگورہ: پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ ملک کو داخلی اور خارجی سطح پر مسائل کا سامنا ہے جبکہ عوام اور پارلیمنٹ کے تعاون کے بغیر اسٹیبلشمنٹ تنہا ملک کو بحران سے باہر نہیں نکال سکتی۔
سوات کی تحصیل خوازہ خیلہ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے محمود خان اچکزئی نے کہا کہ آئین دراصل وفاق، آئینی اداروں، عوام اور ریاست کے مابین سماجی رابطے کی طرح ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ‘آئین کے تحت ایک منتخب پارلیمنٹ کو ملکی پالیسیاں مرتب کرنے اور ان کے نفاذ میں مکمل آزادی حاصل ہونی چاہیے’۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ریاست کے تمام اداروں کو اپنی آئنی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے اور اگر کسی بھی ادارے نے اپنی حدود سے آگے بڑھ کر کچھ کرنے کی کوشش کی تو اس سے ملک انتشار کی دلدل کی طرف بڑھ جائے گا۔
یہ پڑھیں: فاٹا اصلاحات پر محمود خان اچکزئی نے نیا فارمولا پیش کردیا
محمود خان اچکزئی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سیکشن 144 کی خلاف ورزی پر لاتعداد سیاسی کارکنان جاں بحق ہوئے اور متاثر ہوئے لیکن کسی کی بھی ایک آمر کو آئین توڑنے پر کٹہرے میں لانے کی ہمت نہیں ہوئی۔
سربراہ پی کے میپ کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن اور استحکام سمیت بھارت سے دوستانہ تعلقات کے بغیر خطے میں بالخصوص پاکستان میں امن اور ترقی کی امید نہیں رکھنی چاہیئے۔
یہ پڑھیں: ‘خیبر پختونخوا میں ایک ارب 18 کروڑ درخت لگائے’
انہوں نے کہا کہ ‘پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے علاوہ بھی دیگر ترقیاتی منصوبوں کی کامیابی کا راز خطے میں امن اور استحکم سے منسلک ہے۔
گزشتہ روز کوئٹہ میں چرچ پر دہشت گرد حملے کی مذمت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘دہشت گردی کو باہمی تعاون کے بغیر شکست نہیں دی جا سکتی جبکہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کو صرف پختون عوام سے منسوب کرنا گمراہ کن پروپگینڈا ہے’۔
محمود خان اچکزئی نے کہا کہ معاشرے میں طاقتور طبقے کی جانب سے استحصال کے نتیجے میں عدم مساوات جنم لیتی ہے۔
مزید پڑھیں: فاٹا اصلاحات بل: قومی اسمبلی میں کورم پورا نہ ہونے پر حکومت کو شرمندگی کا سامنا
انہوں نے پختونوں سمیت ہر شہری کے سیاسی، معاشی، سماجی اور ثقافی حقوق کو تسلیم کرنے کی اشد ضرورت پر بھی زور دیا۔
وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) بل سے متعلق انہوں کہا کہ ‘فاٹا اصلاحات کا تعلق عوامی فلاح و بہبود سے ہونا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ علاقے کی جغرافیائی حیثیت تبدیل ہوجائے لیکن یہاں کوئی مؤثر اقدامات نہ کیے جائیں’۔
یہ خبر 18 دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی