دنیا

بھارت: طلاق کے معاملے پر نئی قانون سازی کا آغاز

بھارت میں تحریری، زبانی یا موبائل کے ذریعے ایک ساتھ تین طلاقیں دینے والےمرد کو3سال قید کی سزادینے کا بل منظور کرلیاگیا۔

بھارتی کابینہ نے مسلمان مردوں کی جانب سے بیک وقت تین طلاق دیئے جانے کے خلاف نئے مجوزہ بل کی منظوری دے دی، جسے اب 15 دسمبر سے شروع ہونے والے پارلیمان کے اجلاس میں پیش کیے جانے کا امکان ہے۔

خیال رہے کہ رواں برس اگست میں بھارت کی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ مسلمان مردوں کی جانب سے خواتین کو ایک ساتھ تین طلاق دینے کو خلاف قانون قرار دیا تھا۔

نہ صرف سپریم کورٹ بلکہ ملک کی مختلف ریاستوں کی عدالتوں کے ججز بھی اس بات پر متفق ہیں کہ خواتین کو بیک وقت تین طلاق نہیں دی جاسکتی۔

جہاں بھارتی عدالتیں بیک وقت تین طلاق کے خلاف ہیں، وہیں ہندوستان کے مختلف شعبہ ہائی زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد بھی اس کے خلاف ہیں، تاہم ہندوستان کی اسلامی تنظیمیں طلاق کے قانون میں تبدیلی کے حق میں نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ہندوستان : ’بیک وقت تین طلاقیں خواتین کے حقوق کے خلاف‘

اسلامی تنظیموں کو خدشہ ہے کہ انتہاپسند ہندو اپنی مرضی کے مطابق طلاق کے قانون میں تبدیلی کرکے معاملے کو مزید الجھا دیں گے۔

آل انڈیا مسلم ویمن پرسنل لا بورڈ بل کی مںظوری پر خوشی کا اظہار کیا—فائل فوٹو: ہندوستان ٹائمز

اگرچہ اسلامی تنظیموں کا بھی خیال ہے کہ مردوں کی جانب سے خواتین کو بیک وقت تین طلاق دینا بہت بڑا مسئلہ ہے، مگر اس کے لیے قانون میں تبدیلی قابل قبول نہیں، البتہ ایسا کرنے والوں کے لیے سزائیں مقرر کی جاسکتی ہیں۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق یونین حکومت کی کابینہ نے تین طلاق کے معاملے پر نئے مجوزہ بل کی منظوری دے دی، جسے اب پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔

مجوزہ بل میں بیک وقت تین طلاقیں دینے کو جرم قرار دیتے ہوئے مرد کے لیے کم سے کم تین سال تک قید کی سزا تجویز کی گئی ہے۔

مجوزہ بل کو خواتین کے حقوق کے لیے اہم سمجھا جا رہا ہے، جس میں خواتین کو یہ حق بھی دیا گیا ہے کہ وہ طلاق ملنے کے خلاف پولیس میں رپورٹ درج کراسکیں گی۔

مزید پڑھیں: ہندوستان : ’بیک وقت تین طلاقیں خواتین کے حقوق کے خلاف‘

ساتھ ہی بیک وقت تین طلاق ملنے پر خواتین کو نان نفقہ اور بچوں کے حقوق حاصل کرنے کے لیے بھی قانونی جنگ لڑنے کے اختیارات دیے گئے ہیں۔

مجوزہ بل کے مطابق مرد کی جانب سے کسی بھی طرح بیک وقت تین طلاق دینا جرم اور ناقابل قبول ہوگا۔

بل میں واضح کردیا گیا ہے کہ مرد کی جانب سے زبانی، تحریری یا سوشل میڈیا کے ذریعے بیک وقت تین بار دی گئی طلاق کو جرم تسلیم کیا جائے گا۔

مجوزہ بل کی یونین کابینہ سے منظوری پر جہاں عام ہندو سیاسی رہنماؤں نے خوشی کا اظہار کیا ہے، وہیں خواتین نے بھی اس کو اپنی کامیابی قرار دیا۔

دوسری جانب آل انڈیا مسلم ویمن پرسنل لا بورڈ نے بھی بل کی کابینہ سے منظوری پر اطمینان کا اظہار کیا۔

آل انڈیا مسلم ویمن پرسنل لا بورڈ کی شائستہ امبر نے پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی پارٹیوں سے اپیل کی کہ وہ اس بل کو پاس کرانے میں کردار ادا کریں۔

تاہم آل انڈیا مسلم لا بورڈ کی مرکزی باڈی کی جانب سے تاحال کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔