نقطہ نظر

کامیاب زندگی گزارنی ہے تو اِن ’اصولوں‘ پر عمل کیجیے

ہم سب اپنے بُرے حالات اور اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا رونا روتے ہیں، مگر یہ بوجھ دل سے اُتارنا اتنا مشکل بھی نہیں۔

ہم میں سے ایسا کون ہے جو کامیاب زندگی گزارنے کا خواہشمند نہیں ہے؟ لیکن زندگی کو کامیابی کی شاہراہ پر کیسے گامزن کیا جائے اِس بارے میں کم ہی لوگ جانتے ہیں۔ اگر آپ کا شمار بھی اِنہی لوگوں میں ہوتا ہے تو پریشان مت ہوں، کیونکہ مندرجہ ذیل آپ کے لیے زندگی کو کامیاب بنانے کے حوالے سے کچھ بہترین اصول پیش کیے جارہے ہیں، جن پر عمل کرلیا جائے تو آپ کو یقینی طور پر بہت سے ضروری سوالوں کے جواب مل جائیں گے۔

تو آئیے کچھ اصولوں پر بات کرتے ہیں۔

پھول اور کانٹے

پھول کی پتیاں خوشیوں کی مانند ہوتی ہیں جبکہ کانٹے تکلیف کا استعارہ ہیں۔

ہر تکلیف انسان کو سبق سکھاتی ہے جو ساری زندگی یاد رہتا ہے۔ انسان تکالیف اُٹھاتا رہتا ہے، سبق سیکھتا جاتا ہے اور ہر تکلیف سے کچھ نہ کچھ حاصل کرتا جاتا ہے حتٰی کہ کچھ عرصے بعد اُنہی تکالیف کے باعث ایک باشعور و تجربہ کار انسان بن جاتا ہے، جبکہ خوشیاں کھوکھلی ہوتی ہیں۔ یہ انسان کو کچھ نہیں دیتیں بلکہ اگر انسان کا خود پر قابو نہ ہو، مناسب رہنمائی اُسے میسر نہ ہو تو خوشیاں انسان کو گمراہ بھی کرجاتی ہیں۔

لہٰذا پھول کی نرم و نازک ناپائیدار پتیاں کس کام کی؟ اصل تو کانٹے ہیں جو انسان کو شعور کی دولت سے مالامال کر دیتے ہیں۔ پھر یہ سرمایہ عمر بھر کام آتا ہے بلکہ اگلی نسلوں کی تربیت کا سلیقہ بھی سکھاتا ہے۔

تبھی تو کہتے ہیں کہ پھول کی پتیاں جلد سوکھ جاتی ہیں لیکن کانٹے سدا بہار ہوتے ہیں۔

بے ضمیر انسان

بے ضمیر انسان کی اصولوں سے آزاد زندگی نہایت سہل ہوتی ہے کیونکہ وہ پانی کی طرح ہر جگہ سے راستہ بنا کر نکل جاتا ہے لیکن اُس کا مقدّر ہمیشہ نشیب کی پستیاں ہوتی ہیں۔ رفعت چاہتے ہیں تو اپنی زندگی کو بہترین اصولوں کا پابند بنائیں۔

اچھائی کا موقع

جو چیز آج اچھائی سے روکتی ہے، وہ کل دُگنی طاقت سے روکے گی لہٰذا اِس مزاحمت کو آج ہی کچل دیں اور اچھائی کر گزریں کہ اچھائی کا ہر موقع غنیمت ہوتا ہے۔

ناکامی اور بربادی

بربادی ناکامی سے نہیں بلکہ ناکامیوں کے ساتھ سمجھوتہ کرنے سے ہوتی ہے لہٰذا انداز بدل بدل کر کوشش جاری رکھیں کیونکہ ضروری نہیں کہ مقدر کا دروازہ ہمیشہ پہلی دستک پر کھل جائے۔

خود اعتمادی اور اکڑ

خود اعتمادی اور اکڑ میں محض اتنا سا فرق ہوتا ہے کہ خود اعتمادی انسان کو کھڑا کر دیتی ہے اور اکڑ انسان کو منہ کے بل گرا دیتی ہے۔یہ فرق ہمیشہ ملحوظِ خاطر رکھیں۔

چھوٹے کام

چھوٹی سی نیکی بڑی نیکی کی توفیق دیتی ہے اور چھوٹا سا گناہ بڑے گناہ کا حوصلہ دیتا ہے لہٰذا اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں کو کبھی غیر اہم نہ سمجھیں۔ چھوٹی چھوٹی نیکیاں کرنا شروع کریں، آپ جلد بڑی نیکیاں کرنے لگیں گے، چھوٹے چھوٹے گناہ چھوڑنا شروع کریں، آپ جلد بڑے گناہوں سے چھٹکارا پا لیں گے۔

کوشش شرط ہے۔

شمع علم

اندھیرے کا اپنا کوئی وجود نہیں ہوتا، یہ محض نور کے عدم وجود کا نام ہے۔ جہل بھی بذاتِ خود کچھ نہیں، یہ محض علم کے عدم وجود کا نام ہے۔ یاد رکھیں علم کی ایک ننّھی کرن جہل کی گہری ظلمتوں میں اُجالا کرسکتی ہے، لہٰذا اپنے حصّے کی شمع ضرور جلائیں۔

لیکن پہلے اپنے اندر۔

سکون کی منزل

اگر آپ اپنی خامیوں کی قیمت چکانے کو تیار نہیں اور نہ ہی اُنہیں سدھارنے کے خواہاں ہیں تو ذہنی انتشار آپ کا مقدر ہے۔ یا تو تباہی سے سمجھوتہ کرلیجیے یا بہتری کے لیے بھرپور کوشش کیجیے۔ دونوں صورتوں میں آپ سکون پالیں گے۔ رستے کا انتخاب اپنا اپنا ہے۔

تبدّل حالات

خود کو بدلے بغیر حالات بدلنے کی خواہش رکھنا حماقت ہے۔ بُرے حالات یکدم بھی آجاتے ہیں لیکن اچّھے حالات کے لیے وقت لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محنت، صبر اور مستقل مزاجی سے عاری جلدباز انسان اچھے حالات دیکھنے سے پہلے مرجاتا ہے۔ آپ تو ابھی زندہ ہیں، خود کو بدل لیں اور حالات سے مراد صرف مالی حالات نہیں۔

تم کیوں آئے

تمہارے ہونے سے اِس دنیا کا کیا بن گیا؟

تمہارے جانے سے اِس کا کیا چلا جائے گا؟

تم آنے والے پہلے نہیں

تم جانے والے آخری نہیں ہو گے

نظامِ دنیا تم سے پہلے بھی چل رہا تھا

نظامِ دنیا تمہارے بعد بھی چلتا رہے گا

پھر تمہاری کیا ضرورت تھی؟

تم کیوں آئے؟

اپنے لیے یا اِس دنیا کے لیے؟

اپنے لیے جینا تمہاری فطرت ہے

دنیا کے لیے جینا مقصد ہوتا ہے

جو ہر کسی کے پاس نہیں ہوتا

آگئے ہو تو اب مقصد کے ساتھ جیو

تاکہ تمہارا ہونا اور نہ ہونا برابر نہ ہو

خود فریبی

ہم خود کو بہت کچھ سمجھتے ہیں لیکن دوسرے ہمیں کیا سمجھتے ہیں؟ اکثر ہمیں پتا نہیں ہوتا۔ یہ گمراہ کن خود فریبی کئی تنازعات اور حماقتوں کا باعث بنتی ہے۔ دوسروں کی نظر میں اپنا مقام سامنے رکھ کر بات کریں، کم از کم آپ کی عزت بچی رہے گی۔

غبارِ دل

بھاپ کو نکلنے کا راستہ نہ ملے تو ہلکی آنچ پر تھوڑا سا دودھ بھی اُبلتا ہوا کناروں سے باہر آگرتا ہے۔ دوسروں کو غبارِ دل نکالنے کا موقع دیں، معاملات کبھی قابو سے باہر نہیں ہوں گے۔

ورنہ کسی کی ناراضگی آپ کے اچھے خاصے جلتے ہوئے چولہے پر آگرے گی جو آگ کو بجھا بھی سکتی ہے۔ لہٰذا اگر اپنی فرعونیت کچھ کم کرسکتے ہیں تو دوسروں کو غبارِ دل نکالنے کا موقع ضرور دیں، آپ کا چولہا سدا جلتا رہے گا۔

یادِ ماضی

پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتے ہوئے آگے بڑھنے والوں کے پاؤں اُلٹی سیدھی جگہ پڑتے ہیں۔ ایسے ڈگمگاتے قدموں سے چلنے والے کبھی منزل پر نہیں پہنچ پاتے۔ ماضی کا لیموں اچھّی طرح نچوڑ کر سبق کے تمام قطرے نکال لیجیے۔ پھر اُس لیموں کو پرے پھینک دیجیے اور مستقبل پر توجہ دیں جس کا آپ کچھ کرسکتے ہیں ورنہ ماضی کا تو آج تک کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکا۔

حیرت ہے اُن لوگوں پر جو کوڑے دان میں منہ دے کر اُس نچڑے ہوئے لیموں کو دیکھتے رہتے ہیں۔

آخر اُس سے ملتا کیا ہے؟ سوچیے!

عاجزی کی حکمت

متکبّر شخص کے سامنے کبھی عاجزی اختیار نہ کرنا کہ یہ اُس کے کبر اور آپ کی گراوٹ میں اضافہ کرے گی۔ ایک اُس کے لیے نقصان دہ ہے اور دوسری آپ کے لیے۔

غلامی

تمناؤں سے خالی دل کسی کا غلام نہیں بن سکتا۔ یہ خواہشات ہی ہیں جو ہمیں کسی نہ کسی در پر کبھی نہ کبھی جھکا دیتی ہیں۔ اگرچہ خواہشات کا ہونا عین انسانی فطرت ہے لیکن اپنے اصولوں کو ہمیشہ خواہشات پر مقدم رکھیں۔

بے لگام خواہشات

بلندی پانے کے لیے خواہشات کی سیڑھی درکار ہوتی ہے لیکن اگر خواہشات بے لگام ہوجائیں تو انسان کو بلندیوں سے گرا دیتی ہیں۔

نصیب

اگر اپنے نصیب جگانا چاہتے ہیں تو روزانہ سورج سے پہلے جاگیں۔ آپ کے نصیب جاگ جائیں گے۔

اعتبار

ہمہ وقت لرزتی کانپتی کمزور تاروں سے بنے جالے میں رہتی مکڑی اعتبار ڈھونڈتی ہوئی کتنی عجیب لگتی ہے۔

ذلّت کا ڈر

ذلّت کے ڈر سے ذلیل ہوتے رہنے سے بڑی ذلّت کوئی نہیں۔ اعتماد سے جیئں۔

آخری گناہ

آخری گناہ سمجھ کر کیا جانے والا گناہ کبھی آخری گناہ نہیں ہوتا۔

حالات اور انسان

حالات مشکل نہیں ہوتے، انسان کمزور پڑجاتے ہیں؛ اپنی خواہشات کے ہاتھوں۔

نعمان الحق

بلاگر سوشل میڈیا سے رغبت نہیں رکھتے جب کہ پیشے کے لحاظ سے الیکٹریکل انجنئیر ہیں۔ آپ اُن سے بذریعہ ای میل بھی رابطہ کرسکتے ہیں۔ nomanulhaq1@gmail.com

اگر آپ لکھاری سے رابطہ کرنا چاہتے ہیں تو اس نمبر پر کیا جاسکتا ہے۔ 0309-4673593

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔