ابتدائی تاریخِ انسانی کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ انسان مختلف اشیاء کا تبادلہ کرکے اپنی ضرورت کی چیز حاصل کرتے تھے جسے بارٹرنگ کہا جاتا ہے، چونکہ قدیم کرنسی کا کوئی وجود تھا نہیں اس لیے انسان اپنی قیمتی اشیاء یا مال و ملکیت کو زر کے طور استعمال کرتا تھا۔
اِن قیمتی اشیاء اور مال و ملکیت میں مویشی جانوروں سے لے کر غلہ اور سبزیاں، نمک، سونا اور چاندی وغیرہ شامل ہوتے تھے۔ پھر ایک دور آیا کہ جب کچھ ناگزیر ضرورتوں کی بنا پر یہ طریقہ ناکافی اور غیر مناسب سمجھا جانے لگا اور معلوم تاریخ کے مطابق تقریباً 600 قبلِ مسیح میں قدیم تُرکی کے بادشاہ الیاتیس نے دنیا کا پہلا سِکہ متعارف کروایا جو کہ انسانوں کی معاشی تقدیر میں دنیا کا جاندار ترین باب ثابت ہوا۔
17 ویں صدی میں جب بینک نوٹس کا آغاز ہوا تو لوگ ایک بڑے عرصے تک اُسے قبول نہ کرسکے، کیونکہ اکثر جدت کم ہی قبول کی جاتی ہے۔ لیکن ابھی ایسی جدت بھی نہ آئی تھی کیونکہ یہ نوٹ ابھی تک سکہ ہی کے اصولوں پر چل رہا تھا۔ یعنی نوٹ کی رقم کے پیچھے اُس کی حقیقی (intrinsic) قیمت موجود تھی۔ سونا یا چاندی وغیرہ کی مقدار متعین کرکے یہ نوٹ قریب 20 ویں صدی تک چلتے رہے اور پھر کچھ غیر واضح صورتحال کی بنا پر یہ سلسلہ بھی ختم ہوگیا۔
اب نوٹ کی حقیقی قیمت موجود نہیں ہے۔ دنیا میں پائی جانے والی بیشتر کرنسی فیئٹ کرنسی (Fiat Currency) کہلاتی ہے۔ اور یہ کرنسی صرف عوامی اعتماد کی بنیاد پر اپنی قیمت رکھتی ہے۔ گویا نوٹ کی حقیقی قدر صرف وہ اعتماد ہے جو ہم اپنے اداروں پر کرتے ہیں۔ 20 ویں صدی کے دوسرے نصف سے دنیا میں یہی نظام رائج ہے۔
کرپٹو کرنسی
زمانہ بدل رہا ہے اور اس تبدیلی کی رفتار گزشتہ ادوار کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ اسی اثنا میں 21 ویں صدی نے کرنسی کی ایک ایسی جہت سے روشناس کروایا جو کہ آج سے پہلے کبھی تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا، اس قسم کی کرنسی کو کرپٹو کرنسی کا نام دیا گیا جو کہ کرپٹولوجی اور کرپٹو گرافیکل تکنیک سے تیار کی گئی۔
بٹ کوائن اس قبیل کی سب سے پہلی کرنسی ہے جو سال 2009ء میں متعارف ہو کر تھوڑے ہی عرصے میں مقبولیت کی انتہاء کو پہنچ گئی۔ آج اس کی قیمت 19 لاکھ پاکستانی روپوں سے بھی تجاوز کرچکی ہے۔ اس کے بعد ہزار سے اوپر مزید ایسی کرنسیاں متعارف کروائی گئیں جن میں ایتھیریم (Ethereum)، رئیپل (Ripple)، زی کیش (Zcash)، لائٹ کوائن (LiteCoin) وغیرہ سرِفہرست ہیں۔