پاکستان

سینیٹرز کا فیض آباد دھرنا ختم کرنے کے معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ

ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے والوں میں رقم کی تقسیم کا فیصلہ اور مظاہرین کی مالی امداد کی تحقیقات ہونی چاہئیں، سینیٹرز

اسلام آباد: حکومتی اور اپوزیشن سینیٹرز نے مطالبہ کیا ہے کہ فیض آباد انٹر چینج پر 21 روز تک جاری رہنے والی مذہبی جماعتوں کے دھرنے کے پیچھے اور اس سے جڑے معاملات کے حوالے سے عدالتی یا پارلیمانی تحقیقات کی جائیں۔

سینیٹ میں تحریک التواء کے دوران سینیٹرز نے موقف اختیار کیا کہ ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے والوں میں رقم کی تقسیم کا فیصلہ اور مظاہرین کی مالی امداد کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے دھرنا ختم کرنے کے لیے ہونے والے معاہدے کو ’سرنڈر کرنے کے لیے ایک قومی دستاویز‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے ایک خطرناک تاثر قائم ہوا ہے کہ چند سو افراد بندوق اور ٹنڈے کے زور پر معاشرے کو یرغمال بنا سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جس دن دھرنے والوں کو اٹھایا گیا اس دن کچھ چیزیں ایسی ہوئی جس کے بعد پاکستان ویسا ملک نہ رہا جیسا پہلے تھا، ان کا کہنا تھا کہ 25 نومبر کو ریاست کی جانب سے سرنڈر ہونے نے مخالفین کو ایک موقع فراہم کیا کہ وہ یہ دعویٰ کرسکیں کہ جوہری اثاثے غیر محفوظ ہیں اور چند ہزار مسلح لوگ اسے ہائی جیک کرسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد دھرنا: پولیس کاآپریشن معطل، 150 افراد گرفتار

انہوں نے پولیس ایکشن کے بعد آنے والے آرمی چیف کے بیان کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے دونوں جانب سے تشدد کا راستہ اختیار نہ کرنے، ریاستی اداروں اور مظاہرین کو برابر قانونی حیثیت دینے اور اس میں ریاست کی جانب سے تشدد کے بغیر استعمال کے معاملے کو حل کرنے کا کہا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا سوال یہ ہے کہ آیا ہم ہر مرتبہ شکست تسلیم کرتے رہیں گے یا ہم اسے اپنی تاریخ کا ایک عام حصے کی طرح لیں گے اور اس پر قابو پا کر آگے بڑھیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ تحقیقات کی جائیں کہ بنا کسی رکاوٹ کے مظاہرین لاہور سے کیسے آئے اور وہ تین ہفتوں تک کیسے رہے جبکہ کس نے سرنڈر کی شرائط پر بات کی تھی اور دھرنے کے اختتام پر کچھ لوگوں کو نقد سے کیوں نوازا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اس بات کی بھی تحقیقات کی ضرورت ہے کہ کراچی، اسلام آباد، فیض آباد اور لاہور میں جو گزشتہ تین ہفتوں میں ہوا وہ آیا الگ واقعات تھے یا انہیں ایک کسی طریقے سے ایک ساتھ منسلک کیا گیا تھا۔

پختونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کے عثمان کاکڑ نے کہا کہ مظاہرین لاہور سے اسلام آباد ایک منصوبے کے تحت آئے تھے اور ان کا ہدف مارشل لاء کا نفاذ یا ٹیکنوکریٹس کی حکومت کے لیے جگہ بنانا تھا۔

انہوں نے کہا کہ راولپنڈی پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے میں تعاون نہیں کیا۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سعود مجید نے کہا کہ جمہوریت کو کمزرو کرنے کے لیے کام کرنے والی سیاسی جماعتوں کو شناخت کرنا چاہیے، ان کا کہنا تھا کہ پارلیمانی کمیٹی کو پتہ چلانا چاہیے کہ اس دھرنے کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا۔

اسی جماعت کے ایک اور سینیٹر نہال ہاشمی نے مطالبہ کیا کہ دھرنوں کے کلچر کو ختم کرنا ہوگا اور ایک ایسا کمیشن بنانا چاہیے جو 2013 سے ہونے والے دھرنوں کی تحقیقات کرے۔

اس موقع پر سینیٹ کے چیئرمین نے کہا کہ پارلیمان سے ایک واضح اور بلند پیغام جانا چاہیے کہ سیاسی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے مذہب کا استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔

پیپلز پارٹی کے سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ قانون کی حکمرانی کی غیر موجودگی اور کمزور حکومت نے دھرنے اور دہشت گردی کے لیے موقع فراہم کیا، انہوں نے حیرانگی کا اظہار کیا کہ کیوں وزیر اعلیٰ پنجاب نے صوبائی پولیس کو اسلام آباد پولیس کی مدد سے روکا، یہاں تک کہ جن کا نام فورتھ شیڈول میں جاری ہے وہ بھی وہاں آئے اور دھرنے میں شرکت کی۔

پی کے میپ کے اعظم موسیٰ خیل نےکہا کہ دھرنے کو منتشر کرنے کے لیے سول انتظامیہ کی مدد کے لیے فوج کو بلا کر حکومت نے غلطی کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد دھرنا: حکومت کو قوم سے معافی مانگنی چاہیے، پی پی پی رہنما

سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر اعتراز احسن نے کہا کہ یہ دھرنا مذہبی معاملات کے طور پر منفرد تھا اور اس کے لیے بنیاد بنائی گئی تھی لیکن سوشل میڈیا نے ان لوگوں کی زبان کو ظاہر کیا جو مذہبی رہنما ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کہہ رہی تھی کہ اس کے پیچھے کوئی سازش ہے لیکن سازشی کا نام ظاہر نہیں کیا، انہوں نے کہا کہ حکومت اپنی پارٹی کے لیے دی گئی کارکنوں کی قربانیوں اعتراف کرے۔

مسلم لیگ (ن) کی غوث محمد نیازی نے کہا کہ دھرنے کے حوالے سے جج کی جانب سے دیئے گئے ریمارکس کی تحقیقات ہونی چاہیے اور اگر وہ سچ ثابت ہوتے ہیں تو ذمہ داروں کو سزا ملنی چاہیے۔

پاکستان مسلم لیگ (ق) کی ربینہ عرفان نے کہا کہ یہ حکومت کی ناکامی تھی کے دھرنا مظاہرین اسلام آباد میں داخل ہوئے، ان کا کہنا تھا کہ حکومت ناکام ہوئی اور بدترین ناکام رہی، جس پر حکومت کو مستعفی ہو جانا چاہیے تھا۔


یہ خبر 15 دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی