قحط الرجال میں ’کتب میلے‘ کا مسلسل انعقاد کسی جہاد سے کم نہیں!
ایک صحت مند معاشرے کی جڑیں مطالعے کی زرخیزی سے برآمد ہوکر تحقیق کے آب و ہوا میں نشونما پاتی ہیں اور نِت نئے تجربات سے گزر کر پھل دینے کے قابل ہوتی ہیں۔ گویا مطالعہ اِس منزل کی پہلی سیڑھی ہے اور کتاب اِس کا آہن ہے، اِسی لیے کہا جاتا ہے کہ کسی ملک کی تہذیبی، فکری، معاشی، سماجی اور سائنسی سطح کو سمجھنا ہو تو اُس کا اولین ذریعہ وہاں شایع ہونے والی کتابیں اور اُس کی طلب ہوا کرتی ہیں۔
کُتب بینی جہاں سماج کی مادی ضروریات اور فکری ہئیت میں ترقی اور جِدت کا سبب بنتی ہے وہیں انفرادی سطح پر ذہنی پختگی، شعوری بلاغت، وسعت نظری اور اعتدال پیدا کرتی ہے۔ اگرچہ یہ درست ہے کہ 21ویں صدی میں ٹیلی ویژن، انٹرنیٹ اور موبائل فون نے انسانوں کے ذہنوں کو جکڑ رکھا ہے، لیکن بہرحال کتاب کی اہمیت آج بھی اپنی جگہ مسلمہ ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم نے کتابوں سے ناطہ توڑا، اُنہیں دنیا کی کوئی طاقت ماضی کا حصہ بننے سے نہ روک سکی۔ کسی زمانے میں بخارا، بغداد اور غرناطہ کے شہر علم و ادب کا گہوارا تھے لیکن جب مسلمانوں میں کتاب دوستی کا زوال آیا تو نہ بڑی بڑی سلطنتیں قائم رہیں اور نہ عظیم الشان کتب خانے۔
کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ آج کُتب بینی کے حوالے سے دنیا کے 28 بڑے ملکوں میں کوئی مسلمان ملک شامل نہیں ہے۔ رونا تو یہ ہے کہ مسلمان بالعموم اور ہم پاکستانی بالخصوص اقوام عالم میں اپنی موجودہ حالت سے آگاہ ہونے اور اس کا حل جاننے کے باوجود کتابوں اور علمی درسگاہوں سے دور دور ہی رہتے ہیں۔
پڑھیے: کتب بینی کے شوقین خواتین و حضرات متوجہ ہوں
ناخواندہ اکثریت تو ایک طرف، پاکستان کے بڑے شہروں میں بھی متوسط طبقے کا حال یہ ہے کہ بچوں پر باقاعدہ پابندی لگائی جاتی ہے کہ وہ نصابی کتب کے علاوہ کسی دوسری کتاب، اخبار اور رسائل کا رخ نہ کریں۔ عمومی طور پر والدین سمجھتے ہیں اِس طرح اُن کے بچے یکسو ہوکر امتحانات میں نمایاں نمبر حاصل کریں گے لیکن درحقیقت وہ اپنے بچوں کی سوچ کا دائرہ اثر محدود کرکے انہیں معاشی حیوان میں تبدیل کررہے ہیں۔ اقبال نے اس صورتحال کو کچھ یوں بیان کیا تھا کہ
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں
اِس ماحول میں پاکستان پبلشرز، بُک سیلر ایسوسی ایشن اور نیشنل بُک فاؤنڈیشن دلی مبارکباد کے مستحق ہیں جو گزشتہ چند برسوں سے ہر سال شہرِ قائد کے دامن میں کتابوں کا ایک عظیم الشان میلہ سجاتے ہیں۔ ایسے معاشرے میں جہاں نئی کتابوں کی اشاعت اور کُتب بینی کا رجحان خطرناک حد تک زوال پزیر ہو، علمی انحطاط اپنی بدترین سطح پر پہنچ چکا ہو اور قحط الرجال کا دور دورا ہو، وہاں یوں بغیر کسی تعطل کے ایسے میلوں کا مسلسل انعقاد ایک عظیم جہاد ہے۔ سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اِس میلے کی رونق میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، جس کا سہرا یقیناً منتظمین کو جاتا ہے۔