ہراساں کرنے کی شکایات:سندھ یونیورسٹی کے پروفیسر جبری رخصت پر
دادو: سندھ یونیورسٹی کے دادو کیمپس کے ایسوسی ایٹ پروفیسر کو طالبات کی طرف سے ہراساں کرنے کے شکایات پر غیر معینہ مدت کی جبری رخصت پر بھیج دیا گیا۔
ایسوسی ایٹ پروفیسر کا یونیورسٹی کے جامشورو میں مرکزی کیمپس میں ان کے خلاف اسی نوعیت کی شکایت پر انتظامیہ کی جانب سے تحقیقات کے آغاز کے بعد دادو کیمپس تبادلہ کیا گیا تھا۔
پروفیسر نے جبری رخصت پر بھیجنے کے یونیورسٹی انتظامیہ کے فیصلے کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا۔
عدالت میں اپنی درخواست میں پروفیسر نے موقف اختیار کیا کہ انہیں اس فیصلے سے قبل اپنے دفاع کا موقع نہیں دیا گیا۔
یونیورسٹی کے جامشورو کیمپس میں پروفیسر کے خلاف جنسی ہراساں کرنے کی پہلی شکایت جون میں سامنے آئی تھی جس کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ نے ان کے خلاف 7 جون کو تحقیقات کا آغاز کیا۔
مزید پڑھیں: سندھ یونیورسٹی میں طالبات کو جنسی ہراساں کرنے پر صوبائی حکومت کا نوٹس
طالبات کو ہراساں کرنے کا یہ کیس ’انسداد ہراساں کمیٹی‘ کو بھیجا گیا، جو نائلہ رِند قتل کیس کے بعد تشکیل دی گئی تھی، تاہم کمیٹی کے ارکان اب تک کیس کے نتیجے پر نہیں پہنچے۔
یونیورسٹی ذرائع کے مطابق اس دوران ایسوسی ایٹ پروفیسر کے خلاف ہراساں کیے جانے کی مزید شکایات درج کرائی گئیں، جس کے بعد ان کا دادو کیمپس میں تبادلہ کردیا گیا۔
تاہم دادو کیمپس میں بھی پروفیسر کے خلاف چند طالبات کی طرف سے ہراساں کیے جانے کی شکایات سامنے آئیں، جس نے یونیورسٹی انتظامیہ کو انہیں غیر معینہ مدت کے لیے جبری رخصت پر بھیجنے پر مجبور کیا۔
ایسوسی ایٹ پروفیسر نے اپنے خلاف تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں اپنی پوزیشن واضح کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی: ہوٹل میں لڑکی کو ہراساں کرنے پر مقدمے کا اندراج
یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے ان کے خلاف دوسری بار کارروائی کیے جانے پر پروفیسر نے اپنے وکیل کے ذریعے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور یونیورسٹی کے فیصلے کو چیلنج کیا۔
مقامی میڈیا سے بات کرتے ہوئے پروفیسر نے کہا کہ یونیورسٹی انتظامیہ کا انہیں جبری رخصت پر بھیجنے کا فیصلہ غیر قانونی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے عدالت سے یونیورسٹی کے جبری رخصت پر بھیجنے کے فیصلے کو منسوخ کرنے اور ان کی بحالی کا حکم دینے کی استدعا کی ہے۔
سندھ یونیورسٹی کے جامشورو کیمپس کے رجسٹرار ساجد میمن نے معاملے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر کو مرکزی کیمپس میں طالبات کی طرف سے جنسی ہراساں کرنے کے الزامات کا سامنا تھا، جس کے بعد یونیورسٹی میں امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر پروفیسر کا دادو تبادلہ کیا گیا۔
تاہم اس کیمپس میں بھی پروفیسر کے خلاف اسی الزام کے تحت شکایات درج کرائی گئیں، جس کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ نے انہیں جبری رخصت پر بھیجا۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پروفیسر کے خلاف پچھلی شکایتوں کی سماعت کرنے والی انسداد ہراساں کمیٹی حال ہی میں تحلیل کردی گئی تھی اور یونیورسٹی سنڈیکیٹ اجازت سے نئی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ کمیٹی نے پروفیسر کو پوزیشن واضح کرنے کے لیے طلب کیا لیکن وہ پیش نہ ہوئے، بلکہ انہوں نے یونیورسٹی کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا۔
رجسٹرار نے کہا کہ عدالت کی جانب سے جواب طلب کیے جانے پر یونیورسٹی انتظامیہ اپنا جواب جمع کرائی گی۔
واضح رہے کہ اس سے قبل بھی سندھ یونیورسٹی کے دو اساتذہ کے خلاف جنسی ہراساں کرنے کے الزامات عائد کیے گئے تھے، لیکن تحقیقات کے بعد انہیں کلیئر قرار دے دیا گیا تھا۔
یہ خبر 12 دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔