پاکستان

'گمشدہ افراد کے مسئلے کا حل پارلیمنٹ کی مضبوطی سے مشروط'

پارلیمان میں کوئی ایک بھی اس مسئلے پر آواز اٹھانے کے قابل نہیں، عاصمہ جہانگیر

سینئر ماہر قانون عاصمہ جہانگیر نے حال ہی ایک سماجی کارکن رضا محمود خان کی کمشدگی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ملک میں لاپتہ افراد کے بڑھتے ہوئے مسئلے کو پارلیمنٹ کی مضبوطی سے مشروط قرار دے دیا۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'ذرا ہٹ کے' میں گفتگو کرتے ہوئے عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ اس مسئلے کی بڑی وجہ پارلیمنٹ کی کمزوری ہے اور جب تک ریاست کا نظام حکومت کے بجائے ایجنسیاں چلاتی رہیں گی، اُس وقت تک لوگوں کے لاپتہ ہونے کا سلسلہ نہیں رک سکتا۔

انہوں نے کہا کہ 'پارلیمان میں کوئی ایک بھی اس مسئلے پر آواز اٹھانے کے قابل نہیں اور اگر کسی طرح سے بچت ہوتی بھی ہے تو اتنی طاقت ہی نہیں کہ لاپتہ افراد کا پتہ لگا کر انہیں بازیاب کروایا جاسکے'۔

ان کا کہنا تھا کہ کسی کو بھی بغیر ثبوت اٹھانا ایک غیر قانونی عمل ہے، کیونکہ اگر اُش شخص نے کوئی جرم کیا ہے اور وہ پولیس یا ایجنسیوں کی تحویل میں تو کم از کم اس کے گھر والوں کو تو بتایا جانا چاہیے۔

عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ رضا محمود خان کی گمشدگی میں اب تک جو معلومات سامنے آئی ہیں، ان کے مطابق کچھ لوگوں نے انہیں ان کے گھر سے اٹھایا اور اپنے ساتھ لے گئے اور جب ان کے اہل خانہ ان کی رہائش گاہ پر پہنچے تو ان کے کمپیوٹر تک کی چیزیں غائب تھیں۔

مزید پڑھیں: 'لاپتہ افراد کمیشن، گمشدگیوں میں ملوث اداروں کو ذمہ دار ٹھہرانے میں ناکام'

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کیس میں رضا کے گھر والوں کی جانب سے مسلسل پولیس سے سی سی ٹی وی فوٹیج نکلوانے کی درخواست کی گئی، مگر وہ اس کام سے یہ کہہ کر انکار کررہے ہیں کہ اُس سے کچھ پتا نہیں لگے گا۔

عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس حوالے سے عدالت میں حبس بیجا میں رکھنے کی ایک اپیل بھی دائر کردی ہے اور وہ خود اب اس مقدمے کو دیکھ رہی ہیں۔

خیال رہے کہ رضا محمود خان پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے سر گرم ایک غیر سرکاری تنظیم 'آغاز دوستی' سے وابستہ ہیں، جو رواں ماہ 2 دسمبر سے لاپتہ ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’لاپتہ افراد‘ کے اہل خانہ کی غمزدہ کردینے والی کہانیاں

رضا محمود کے بارے میں شبہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ انہیں ان کے گھر سے اٹھایا گیا اور تاحال ان کا اپنے اہلخانہ سے کسی قسم کا رابطہ نہیں ہوا۔

واضح رہے کہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے بھی رضا محمود کی پراسرار گمشدگی پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے حکومت سے ان کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا ہے۔