نیب ریفرنسز: شریف خاندان کے خلاف مزید 2 گواہان طلب
اسلام آباد: احتساب عدالت نے نواز شریف، ان کے صاحبزادوں حسن نواز اور حسین نواز، صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ریفرنس میں مزید 2 گواہان کو طلب کرلیا۔
وفاقی دارالحکومت کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے شریف خاندان کے خلاف نیب کی جانب سے دائر ریفرنسز کی سماعت کی۔
ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ریفرنس میں نامزد ملزم کیپٹن (ر) صفدر عدالت پیش ہوئے جبکہ سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو حاضری سے عبوری استثنیٰ حاصل ہے تاہم ان کی جگہ ان کے نمائندے عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز میں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں استغاثہ کے گواہ ملک طیب پر جرح کرتے ہوئے پوچھا کہ جو لوگ نواز شریف کی جانب سے چیکس لے کر آتے تھے کیا آپ انہیں ذاتی طور پر جانتے ہیں جس کا ملک طیب نے نفی میں جواب دیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس جو ریکارڈ موجود ہے انہوں نے اسی کی بنیاد پر اپنا بیان دیا تھا۔
مزید پڑھیں: نیب ریفرنس: نواز شریف کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور
خواجہ حارث نے فیلگ شپ انوسٹمنٹ ریفرنس میں استغاثہ کے گواہ آفاق احمد کی جانب سے پاناما پیپرز کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کو ریکارڈ کرائے گئے بیان کی کاپی فراہم کرنے کی استدعا کی۔
نواز شریف کے وکیل کی استدعا پر نیب کی جانب سے تحریری جواب جمع کرایا گیا جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ آفاق احمد کا بیان سپریم کورٹ میں جمع کرایا جاچکا ہے لہٰذا وہاں سے جواب کی کاپی حاصل کرنے کے لیے وقت درکار ہے۔
سماعت کے دوران ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ریفرنس میں استغاثہ کے گواہ اور نیب کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر عدیل اختر کا بیان بھی قلمبند کیا گیا۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے استغاثہ کے مزید 2 گواہان کو طلب کرتے ہوئے سماعت 19 دسمبر تک کے لیے ملتوی کردی۔
خیال رہے کہ گزشتہ سماعت کے دوران نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کی معاون وکیل عائشہ حامد نے احتساب عدالت میں درخواست جمع کرائی تھی جس میں انہوں نے اعتراض اٹھایا تھا کہ نیب نے نجی بینک کی منیجر نورین شہزاد کی جانب سے فراہم کردہ دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا کیونکہ ان کا نام گواہوں کی فہرست میں نہیں تھا۔
یہ بھی پڑھیں: شریف خاندان کے خلاف ریفرنسز میں مشترکہ گواہان سے ایک ہی سماعت میں جراح کرنے کی ہدایت
احتساب عدالت نے عائشہ حامد کی جانب سے دائر درخواست مسترد کردی تھی جبکہ نجی بینک کی منیجر نورین شہزاد کی جانب سے پیش کی گئی دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کا حکم دے دیا۔
اسلام آباد کی احتساب عدالت کے باہر میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کیپٹن (ر) صفدر کا کہنا تھا کہ ان کا نہیں بلکہ پاکستان کی سیاست کا احتساب کیا جارہا ہے۔
کیپٹن (ر) صفدر کا کہنا تھا کہ ہم عدالتی حکم پر ہر سماعت میں پیش ہورہے ہوں جبکہ ہم سپریم کورٹ کے حکم پر ’6 ہیروں‘ کے سامنے بھی پیش ہوئے تھے جو دکھتے ہیرے ہیں لیکن اندر سے کانچ کے ہیں۔
نواز شریف کے داماد کا مزید کہنا تھا کہ وہ ایک ذمہ دار شخص ہیں اور پاکستان کے آئین اور ختم نبوت کو تحفظ فراہم کرنے والے قانون کے محافظ ہیں لہٰذا عدالت جہاں بلائے گی ہم وہاں جائیں گے۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے پاناما پیپرز کیس کے حتمی فیصلے میں دی گئی ہدایات کی روشنی میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے نواز شریف اور ان کے صاحبزادوں حسن نواز اور حسین نواز کے خلاف 3 ریفرنسز دائر کیے گئے تھے جبکہ مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کا نام ایون فیلڈ ایونیو میں موجود فلیٹس سے متعلق ریفرنس میں شامل ہے۔
سپریم کورٹ نے نیب کو 6 ہفتوں کے اندر شریف خاندان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت جاری کی تھی، تاہم نیب نے 8 ستمبر کو عدالت میں ریفرنسز دائر کیے تھے۔
احتساب عدالت کی اب تک کی کارروائی
اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نیب ریفرنسز پر 13 ستمبر کو پہلی مرتبہ سماعت کرتے ہوئے شریف خاندان کو 19 ستمبر کو طلب کر لیا تھا تاہم وہ اس روز وہ پیش نہیں ہوئے جس کے بعد عدالتی کارروائی 26 ستمبر تک کے لیے مؤخر کردی گئی تھی جہاں نواز شریف پہلی مرتبہ عدالت میں پیش ہوئے۔
دوسری جانب احتساب عدالت نے اسی روز حسن نواز، حسین نواز، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے 2 اکتوبر کو پیش ہونے اور 10، 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔
خیال رہے کہ 2 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نواز شریف عدالت میں پیش ہوئے لیکن ان پر فردِ جرم عائد نہیں کی جاسکی۔
تاہم نواز شریف کے صاحبزادوں حسن نواز، حسین نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف عدالت میں پیش نہ ہونے پر ناقابلِ ضمانت وارنٹ جبکہ مریم نواز کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے تھے۔
نواز شریف 5 اکتوبر کو اپنی اہلیہ کی تیمارداری کے لیے لندن روانہ ہوگئے تھے جہاں سے وہ عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب چلے گئے تھے۔
بعد ازاں مریم نواز اپنے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کے ہمراہ 9 اکتوبر کو احتساب عدالت میں پیش ہونے کے لیے اسی روز صبح کے وقت لندن سے اسلام آباد کے بینظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچی تھیں جہاں پہلے سے موجود نیب حکام نے کیپٹن (ر) صفدر کو ایئرپورٹ سے گرفتار کر لیا تھا جبکہ مریم نواز کو جانے کی اجازت دے دی تھی۔
کیپٹن (ر) صفدر کو نیب حکام اپنے ساتھ نیب ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد لے گئے تھے جہاں ان کا بیان ریکارڈ کیا گیا اور بعدازاں طبی معائنے کے بعد احتساب عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔
9 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران احتساب عدالت نے 50 لاکھ روپے کے علیحدہ علیحدہ ضمانتی مچلکے جمع کرانے کے بعد مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت منظور کر لی تھی جبکہ عدالت نے حسن اور حسین نواز کا مقدمہ دیگر ملزمان سے الگ کرکے انہیں اشتہاری قرار دیتے ہوئے ان کے دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیئے تھے۔
یاد رہے کہ احتساب عدالت نے 19 اکتوبر کو سبکدوش ہونے والے وزیراعظم، ان کی صاحبزادی اور داماد کیپٹن (ر) صفدر پر ایون فیلڈ فلیٹ کے حوالے سے دائر ریفرنس میں فرد جرم عائد کی تھی۔
عدالت نے نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے دائر علیحدہ ریفرنسز میں فرد جرم عائد کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس: نواز شریف، مریم اور کیپٹن صفدر پر فردِ جرم عائد
ان تمام کیسز میں ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا تھا، اس کے علاوہ حسن اور حسن نواز بھی اپنے والد کے ہمراہ ریفرنسز میں نامزد ملزمان ہیں۔
نواز شریف پر العزیزیہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ میں فردِ جرم عائد ہونے کے ایک روز بعد (20 اکتوبر) اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نیب کی جانب سے دائر فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں بھی فردِ جرم عائد کردی تھی۔
عدالت نے 26 اکتوبر کو نواز شریف کے خلاف 3 ریفرنسز میں سے 2 ریفرنسز میں عدالت میں پیش نہ ہونے پر قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے تھے اور انہیں 3 نومبر کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم جاری کیا تھا۔
بعد ازاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے ہمراہ 3 نومبر کو احتساب عدالت میں پیش ہوئے اور نیب کی جانب سے دائر ریفرنسز کو یکجا کرنے کے حوالے سے درخواست دائر کی جس پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا تھا۔
نواز شریف 8 نومبر کو اپنی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے ہمراہ احتساب عدالت پیش ہوئے تھے جہاں احتساب عدالت کی جانب سے سابق وزیرِاعظم کو کٹہرے میں بلا کر باقاعدہ فردِ جرم عائد کی گئی تھی۔
15 نومبر کو احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی استثنیٰ کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں عدالتی کارروائی سے ایک ہفتے کے لیے استثنیٰ دے دیا اور اس دوران ان کی عدم موجودگی میں ان کے نمائندے ظافر خان کو عدالت میں یپش ہونے کی اجازت دے دی تھی۔
22 نومبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نواز شریف نے احتساب عدالت سے التجا کی تھی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے شریف خاندان کے خلاف ریفرنسز کو یکجا کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر رکھا ہے اور فیصلہ سامنے آنے نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کی جانب سے عدالت میں حاضری سے مزید استثنیٰ دی جائے، عدالت سے مزید استثنیٰ 5 دسمبر تک کے لیے مانگی گئی تھی۔
6 دسمبر کو ہونے والی سماعت کے دوران استغاثہ کے گواہ ملک طیب نے نواز شریف کے مختلف بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات پیش کیں۔
7 دسمبر کو سماعت کے دوران احتساب عدالت نے عائشہ حامد کی جانب سے دائر درخواست مسترد کردی تھی جبکہ نجی بینک کی منیجر نورین شہزاد کی جانب سے پیش کی گئی دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کا حکم دے دیا تھا۔