کتاب ریویو: فرشتہ نہیں آیا
ادبی نقاد ایک عرصے سے عالمی ادب میں اردو فکشن کی جگہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ بہت مشکل کام ہے۔ عمر میں اردو فکشن مغرب میں پیدا ہونے والے فکشن سے بہت کم ہے۔ مگر پھر بھی ایک صدی کے قریب عرصے میں اس نے ایسے لکھاری پیدا کیے ہیں جنہوں نے خود کو عالمی سطح پر اپنی موجودگی محسوس کروائی ہے۔
ناصر عباس نیّر کا افسانوں کے تازہ ترین مجموعے 'فرشتہ نہیں آیا' کی اشاعت کے بعد جہاں تک اردو افسانوں کی جگہ کی تلاش کی بات ہے تو اس تلاش کو اب ختم ہو جانا چاہیے۔ غلطی پر نہ رہیں: اردو افسانے میدان میں آ چکے ہیں، مگر اتنی دھوم دھام کے ساتھ نہیں جتنا کہ ان کا حق ہے۔
نیّر ایک مانے ہوئے ادبی نقاد ہیں۔ اردو ادب کے نوآبادیاتی اور بعد از نوآبادیاتی پہلوؤں، اور ادبی رجحانات پر گلوبلائزیشن کے اثرات پر ان کی کتابوں نے پہلے ہی تدریسی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے۔ گذشتہ سال انہوں نے اپنے چاہنے والوں کو اردو افسانوں کے ایک مجموعے 'خاک کی مہک' کی اشاعت سے حیران کر دیا تھا۔
یہ نہایت حیران کن کتاب ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ کچھ ناقابلِ بیان وجوہات کی بناء پر اسے وہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی جس کی انہوں نے توقع کی تھی۔ فرشتہ نہیں آیا فکشن لکھنے کی ان کی دوسری کوشش ہے، اور اس بات پر شکر ادا کیا جانا چاہیے، کیوں کہ کہانیاں بُننے کا ان کا غیر معمولی انداز پڑھنے والوں کو اسی تخلیقی سفر پر ڈال دے گا جس سے لکھاری یہ تحریر کرتے وقت گزرے ہوں گے۔
پہلی باتیں پہلے۔ نیّر کی کہانیاں صفحات پر نہیں کھلتیں، بلکہ وہ ان کی روح کا دروازہ ہیں، جہاں سے وہ قاری تک پہنچتی ہیں۔ ان کا پیغام سمجھنے کے مرحلے کے دوران پڑھنے والا یا والی خود بھی ایک تخلیقی فرد بن جاتا ہے۔ یہی وہ جگہ ہے کہ جہاں بیانیے کی پیچیدگی اور بھی زیادہ حیران کن بن جاتی ہے۔
مگر یہ حیرانی خوشگوار نہیں ہے۔
نیّر اس معاشرے کی کہانیاں لکھتے ہیں جس سے وہ تعلق رکھتے ہیں، اور جسے وہ اپنے آپ کی طرح پہچانتے ہیں۔ کتاب میں لوگوں کی اور ان کے شہروں کی کوئی ہنسی خوشی پر مبنی کہانیاں نہیں ہیں۔ یہ حقیقت کے بدذائقہ ٹکڑے ہیں، زندگی کی دوسری حقیقتوں کی طرح۔ جب نیّر ایک کہانی سناتے ہیں تو حقیقت اور ماورائے حقیقت دنیائیں اپنی الگ الگ شناخت کھوئے بغیر آپس میں گندھ جاتی ہیں، اور میلان کندیرا کے الفاظ میں، اتفاق کرنا آپس میں مدغم ہونا ہی ہے۔ نیّر کے تخلیقی میدان میں تصور اور حقیقت بلا روک ٹوک اپنی جگہیں تبدیل کرتی ہیں۔