پاکستان

’ہمارے مخالفین حکومت گرانے کیلئے شیطان سے اتحاد کرنے کو تیار ہیں‘

ماضی میں پاکستان میں آئین کی حکمرانی کے لیے مسلم لیگ کی قیادت نے قیمت ادا کی اور اب بھی ادا کر رہی ہے، خواجہ سعد رفیق

وفاقی وزیر ریلوے اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق کا کہنا ہے کہ ہماری جماعت کے کچھ مخالفین ہماری حکومت گرانے کے لیے شیطان سے بھی اتحاد کرنے کے لیے تیار ہیں۔

لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ سعد رفق نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت ہے جو آئین اور ووٹ کی حکمرانی پر یقین رکھتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئین کی حکمرانی یہ ہے کہ تمام ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کریں جبکہ اگر پاکستان میں آئین کی حکمرانی کی بات کی جائے تو اس کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے جسے مسلم لیگ (ن) کی قیادت نے ماضی میں بھی ادا کی اور اب بھی ادا کر رہی ہے۔

مزید پڑھیں: آصف زرداری کی شہباز شریف کے استعفے کے مطالبے کی حمایت

ان کا مزید کہنا تھا کہ سیاسی مخالفین (ن) لیگ کو گرانے کے لیے آپس میں اتحاد کررہے ہیں اور کچھ مخالفین تو ’شیطان‘ سے بھی اتحاد کرنے کے لیے تیار ہیں۔

خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ وہ حالات سے گھبرانے والے نہیں اور جانتے ہیں کہ آگے بڑھنے کے لیے محنت سے کام کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کے سیاسی مخالفین مسلم لیگ (ن) کا ووٹ کاٹنے کے لیے اور پارٹی کو نقصان پہنچانے کی خواہش میں ملک کو اور جمہوری نظام کو نقصان پہنچانا شروع کر دیتے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ آصف زرداری ایک شاطر اور سمجھدار آدمی ہیں لیکن ان کی پارٹی بکھر چکی ہے اور لاکھوں ووٹوں سے سیکڑوں پر آکر صرف صوبہ سندھ کے دیہی علاقوں تک محدود ہوگئی ہے۔

یہ بھی دیکھیں: آصف علی زرداری کا بھنگڑا

خواجہ آصف نے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کو سیاست میں ایک روبوٹ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا کردار ملکی سیاست میں ایک ربورٹ کی طرح ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں روبوٹ کے طرز کی سیاست نے ملک کو شدید نقصان پہنچایا۔

پاکستان میں آئندہ انتخابات پر بات کرتے ہوئے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ انتخابات وقت پر ہونے چاہیے ہیں تاہم اس کے بروقت انعقاد کا تعلق آئینی ترمیم سے ہے۔

ماڈل ٹاؤن سانحے کے حوالے سے سعد رفیق کا کہنا تھا کہ عدالت کا فیصلہ پسند ہو یا ناپسند ہرحال میں ماننا پڑتا ہے جبکہ ماڈل ٹاؤن سانحے میں ہونے والی اموات کا فیصلہ عدالت میں ہی ہوگا۔