یروشلم کے معاملے پر سعودی عرب کا 'حقیقی مؤقف' کیا ہے؟
یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیے جانے امریکی صدر کے فیصلے پر پاکستان کا احتجاج واضح اور بااصول رہا ہے۔ اگر تاریخ کی چند دلچسپ قلابازیوں کے آگے رکھیں تو آگے کیا ہو سکتا ہے؟ کیا ہو کہ اگر پاکستان کے مفادات کے راستے میں رکاوٹیں حائل ہوجائیں، یا جیسے وہ کہتے ہیں، سیاسی زمین پیروں کے نیچے سے کھسک جائے؟
آئیے ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں کہ کس طرح جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں بیناد پرست عقائد میں تبدیلی رونما ہوئی۔ ایک وقت تھا کہ جب امریکہ سعودی عرب کو ہتھیار بیچنے کا محض اعلان ہی کرتا تھا تو اسرائیلی اور ہندوستانی سفارتکار دوڑتے ہوئے امریکی دفتر خارجہ پہنچتے تھے اور اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے تھے۔
1992 میں ہندوستان کے لیے اسرائیل کے پہلے سفارت کار رہنے والے، جیورا بیچر ںے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ دونوں ملکوں کے سفارتکار ایک گاڑی میں ہی کیوں نہیں جاتے۔ ایک وقت تھا کہ جب پاکستان لبیا کے ساتھ بطور اپنے تیل سے مالا مال عرب اتحادی معاشقہ لڑاتا تھا نہ کہ سعودی عرب کے ساتھ۔
1974 میں لاہور اسٹیڈیم قذافی اسٹیڈیم بن گیا تھا جبکہ 12 برس بعد شاہ فیصل مسجد کا اسلام آباد میں افتتاح ہوا تھا۔ افغان جنگ نے پاکستان کے عرب اتحاد کو تبدیل کر کے رکھ دیا۔ سرد جنگ کے خاتمے پر ہندوستان کے مشرق وسطیٰ پر مؤقف میں تبدیلی واقع ہوئی۔
آج ہندوستان اور پاکستان دونوں ہی سعودی عرب کے قریبی دوست ہیں — ستم ظریفی دیکھیے کہ ہندوستان تو واضح طور پر اس کا دوست ہے جبکہ پاکستان کے ساتھ فوجی اتحاد کے باجود بھی، یا شاید اسی وجہ سے، ان کی دوستی میں خود اعتمادی کی کمی جھلکتی ہے۔
یروشلم کی حیثیت پر امریکی قلابازی پر جمعرات کو ہندوستان نے کوئی واضح جواب دینے سے گریز کیا۔ اس کی وزارت خارجہ محض اتنا ہی بول سکی کہ ہندوستان مشرق وسطیٰ پر اپنی ایک آزادانہ پالیسی رکھتا ہے، کوئی دوسرا ملک اسے متعین نہیں کرتا۔
کمال ہوشیاری دیکھیے، یہ نہیں بتایا گیا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کیے جانے پر اس کی پالیسی کیا ہے۔ پاکستان نے تو اس اقدام کے خلاف اپنا حسبِ توقع احتجاج ریکارڈ کروایا اور اسی طرح سعودی عرب نے کروایا۔
یروشلم کی حیثیت پر ٹرمپ کے فیصلے کے خلاف باضابطہ طور پر احتجاج کرنے کے ساتھ ساتھ اگر سعودیوں نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کردیے تو پاکستان کی مشرق وسطیٰ کے حوالے سے پالیسی کا کیا ہوگا؟ یہ سوال شاید اتنا بے تکا ہے نہیں جتنا کہ یہ لگتا ہے۔
تمام شواہد اشارہ کرتے ہیں کہ پاکستان کے برعکس، سعودی عرب خاموشی کے ساتھ تو سہی لیکن خفیہ طور پر نہیں، یروشلم کے کم از کم ایک حصے کو اسرائیل کو دینے کی حمایت کرتا رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہودی ریاست کو تسلیم کرنے کی بھی تجویز دیتا رہا ہے۔
امریکہ حمایتی سعودی حکومت ٹرمپ اور یروشلم پر جو آج شور مچا رہی ہے — کوئی سرزنش کیے بغیر کہ جس طرح پہلے اوبامہ کی صدارت کے دوران کرتی تھی— اسے دیکھ کر لگتا ہے کہ جیسے اسرائیل کے ساتھ پہلے سے طے شدہ معاملات کے بعد ایسا کیا جا رہا ہے۔
فاس (مراکش) میں 1981 کا عرب سربراہی اجلاس 8 نکاتی فہد منصوبے پر بکھر گیا تھا۔ فہد ایک امریکہ کے حمایتی سعودی ولی عہد کا نام تھا جن کے نام پر منصوبے کا نام رکھا گیا تھا۔ ریاض میں ان کے موجودہ ہم منصب اسی منصوبے پر گامزن ہیں لیکن تھوڑے ڈھکے چھپے انداز میں۔
منصوبے میں اسرائیل کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ 1967 میں فتح ہونے والے علاقوں، بشمول مشرقی یروشلم (مکمل شہر نہیں) سے دستبردار ہوجائے، بستیاں منہدم کی جائیں، پی ایل او کو فلسطینیوں کی نمائندہ جماعت تسلیم کیا جائے، ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے جس کا دارالحکومت یروشلم ہو، اور تمام علاقائی ممالک کو امن کی گارنٹی دی جائے۔
معمر قذافی، حافظ الاسد، اور صدام حسین نے اس منصوبے کی مخالفت کی اور صرف اپنے اپنے نائبین کو فاس بھیجا۔ آج ان تینوں کے ممالک کھنڈرات بن چکے ہیں، جس کی کئی وجوہات میں سے ایک ریاض-تل ابیب-واشنگٹن منصوبے کی مخالفت بھی ہے۔ عرفات غیر متوقع طور پر وفات پا گئے، اور یمن کے عبداللہ صالح، جنہوں نے بغداد پر سعودی حمایت یافتہ امریکی حملے کے خلاف صدام حسین کی مدد کی تھی، انہیں ہٹا دیا گیا۔
مگر اپنے وطن میں سعودی عرب کے دانشور، متوسط طبقہ اور مذہبی حلقے اسرائیل کو تسلیم کرنے والے کسی بھی منصوبے کے سخت خلاف ہیں۔ انہیں گذشتہ ماہ ہونے والے کریک ڈاؤن میں بالکل سکیڑ کر رکھ دیا گیا۔ ٹرمپ نے اس کریک ڈاؤن کی مذمت نہیں کی ہے۔
ولی عہد محمد بن سلمان، تیس سال سے کچھ اوپر کے ایک طاقتور ٹیکنوکریٹ نے اس تعلق کو مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے اس سال مارچ میں واشنگٹن کا دورہ کیا اور ظہرانے پر صدر ٹرمپ کے مہمان بنے۔ ان کے اس دورے کو ان کے مشیروں نے دو طرفہ تعلقات میں "ایک تاریخی موڑ" قرار دیا۔
یروشلم پوسٹ کے حوالے سے چند خبروں میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کئی اسرائیلی کمپنیاں سعودی عرب کے پبلک انویسٹمنٹ فنڈ کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہیں تاکہ سعودی عرب کے مجوزہ "اسمارٹ سٹی" میں نئے کاروباری مواقع سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ 20 نومبر کو برطانیہ کے اخبار انڈیپینڈینٹ نے ایک اسرائیلی وزیر کا بیان شائع کیا کہ اسرائیل کے سعودی عرب کے ساتھ ایران سے مشترکہ خطرے کی وجہ سے خفیہ روابط ہیں۔ اس بیان کو دونوں ممالک کے سینیئر حکام میں سے کسی کی جانب سے پہلا اعتراف کہا جا رہا ہے۔ سعودی حکومت کے پاس اسرائیلی وزیرِ توانائی یوول اسٹائنیٹز کے بیان کے ردِعمل میں کوئی فوری جواب نہیں تھا۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کے ایک ترجمان نے بھی دی انڈیپینڈنٹ کی جانب سے تبصرے کی ایک درخواست پر جواب نہیں دیا۔
ایک کافی بڑھا چڑھا ہوا نظریہ یہ ہے کہ ٹرمپ کا یہ اقدام مشرقِ وسطیٰ میں زلزلہ لے آئے گا۔ ذرا عرب دنیا کو مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک دیکھیں۔ مغرب میں واقع مراکش کو 1980 کی دہائی میں مغربی صحاروی عرب ریپبلک (پولیساریو) کے خلاف جنگ کے لیے کچھ لو کچھ دو کی بناء پر امریکا اور سعودی عرب کا ساتھ دینا پڑا۔ جنوب اور مشرق میں سوڈان اور یمن ہیں جو دونوں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جبکہ شمال میں خانہ جنگی کا شکار لیبیا ہے۔ ایران کا حزب اللہ اور تباہ حال شام کے علاوہ باقی مسلم ممالک پر کتنا اثر و رسوخ ہے؟ چنانچہ صرف افغانستان اور ملائیشیا جیسے چند کم بااثر ممالک اور پاکستان ہی رہ جاتے ہیں جنہیں اپنی فلسطین کے متعلق کسی بھی پالیسی کے نتائج کے لیے تیار رہنا ہوگا۔
اگر پاکستان کو حسبِ ضرورت سعودی عرب کی طرح کے اقدامات کرنے پڑے، تو بڑھتی ہوئی بریلوی قوّت کی وجہ سے یہ کام آسان نہیں ہوگا۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 8 دسمبر 2017 کو شائع ہوا۔
لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس jawednaqvi@gmail.com ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔