پاکستان

حکومت کا فاٹا میں ایف سی آر کو ایک ہفتے میں ختم کرنے کا اعلان

گورنر خیبر پختونخواہ جلد صدر مملکت کو ایف سی آر قوانین کے خاتمے کے لیے سمری بھجوادیں گے، وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ

وزیرسیفران عبدالقادر بلوچ نے کہا ہے کہ حکومت وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) میں فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر) جیسے کالے قانون کو ایک ہفتے کے اندر تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔

اسلام آباد میں فاٹا اصلاحاتی کمیٹی کے سربراہ سرتاج عزیر کے ہمرا پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ 'ایف سی آر ایک کالا قانون ہے اور اس سے ہمیں اپنی چھڑانا ضروری ہے'۔

عبدالقادر بلوچ نے تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ گورنر خیبر پختونخواہ جلد صدر مملکت کو ایف سی آر قوانین کے خاتمے کے لیے سمری بھجوادیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اب تک کسی کو بھی ایف سی آر ختم کرنے کی توفیق نہیں ہوئی تاہم اب فاٹا اصلاحات کے لیے سازگار موقع ہے۔

فاٹا کو صوبہ خیبرپختونخوا (کے پی) سے ضم کرنے کا عزم کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 'فاٹا اصلاحات کے 26 پہلو ہیں اس لیے اس معاملے پر جلدی نہیں کی جاسکتی اور کے پی کے ساتھ انضمام کی حتمی تاریخ بھی نہیں دے سکتا تاہم فاٹا کا انضمام ہوگا ضرور ہوگا'۔

وزیر سیفران نے کہا کہ فاٹا اصلاحات کے لیے ماحول سازگار ہے اگر اب پیچھے ہٹے تو تباہ کن ہوگا اور فاٹا اصلاحات پر رکاوٹ نہیں کوئی آئی تو دور کریں گے اور اتحادیوں کے تحفظات بھی دور کردیں گے۔

انھوں نے کہا کہ فاٹا میں 1440 خالی اسامیوں کو پر کیا جارہا ہے۔

واضح رہے کہ فاٹا کے انتظام کو تاحال برطانوی راج کی جانب سے 1901 میں بنائے گئے کالے قانون ایف سی آر کے تحت چلایا جارہا ہے جو قبائلی علاقوں کے عوام کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

ایف سی آر قانون کے مطابق فاٹا کے رہائشیوں پر اپیل، وکیل، اور دلیل جیسے بنیادی حقوق کا اطلاق نہیں ہوتا۔

یاد رہے کہ خیبر پختونخوا ہائی کورٹ اور بلوچستان ہائی کورٹ نے ایف سی آر کو غیرقانونی قرار دے دیا ہے۔

'فاٹا اصلاحات پر کام جاری ہے'

فاٹا اصلاحات کمیٹی کے سربراہ سرتاج عزیز نے وزیر سیفران عبدالقادر بلوچ کے ہمراہ پریس کانفرس کے دوران کہا کہ 'فاٹا کو مین اسٹریم میں لانے پر کام جاری ہے اور فاٹا اصلاحات پر ہر مہینے بریفنگ دی جائےگی'۔

انھوں نے کہا کہ فاٹا اصلاحات پر کام نہ ہونے کا تاثر غلط ہے۔

فاٹا اصلاحات کمیٹی کے سربراہ نے کہا کہ فاٹا سے ایف سی آر کا خاتمے کررہے ہیں اورسپریم کورٹ فاٹا کو ہائی کورٹ کے دائرہ کار میں لائے گا تاہم کورم پورا نہ ہونے کے باعث اس حوالے سے بل منظور نہ ہوسکا۔

سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ ایک ہزار ارب روپے کا فاٹا ترقیاتی فنڈ تیار کیا جائے گا جبکہ فاٹا کو معاشی طور پر مرکزی حیثیت دلانے کے لیے کافی منصوبے زیر غور ہیں۔

انھوں نے کہا کہ فاٹا کو انتظامی طور پر صوبائی اکائی میں شامل کرنے کے لیے کے پی حکومت سے رابطے میں ہیں اور فاٹا کو سیکیورٹی حوالے سے مرکز میں لانے کے لیے ایف سی کے ذریعے لیویز فورس کی بھرتی کی جائے گی۔

سرتاج عزیز نے کہا کہ قانونی، معاشی، انتظامی اورسیکورٹی حوالے سے پیش رفت کے بعد فاٹا کو کے پی میں ضم کیا جائے گا۔

انھوں نے اتحادیوں کے بیشتر تحفظات دور کردینے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ فاٹا کی جغرافیائی صورت حال ایسی نہیں ہے کہ اس کو الگ صوبہ بنایا جائے۔

سرتاج عزیز نے کہا کہ اگر فاٹا کا انضمام نہ ہو تب بھی آئندہ عام انتخابات میں صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر انتخاب ہوگا تاہم فاٹا میں صوبائی اسمبلی کی کتنی نشستیں ہوں گی وہ الیکشن کمیشن طے کرے گا۔

یاد رہے کہ حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دو اہم اتحادی جمعیت علما اسلام اور پشونخوا ملی پارٹی کے سربراہ محمود اچکزئی کی جانب سے فاٹا کو الگ صوبہ بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کے پی میں انضمام کی مخالفت کی ہے جس کے باعث مسلم لیگ (ن) سمیت حزب اختلاف جماعتوں میں اتفاق رائے کے باوجود فاٹا کو کے پی میں ضم کرنے کا معاملہ التوا کا شکار ہوگیا تھا۔