دنیا

امریکی فیصلے کے خلاف فلسطین میں پُرتشدد مظاہرے

بیت المقدس کواسرائیل کادارالحکومت تسلیم کرنےکےاعلان کےبعدمغربی کنارےکےشہروں میں مظاہروں کےدوران متعددفلسطینی زخمی ہوگئے۔

رم اللہ/ برسلز/ اوٹاوا: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے اعلان کے خلاف فلسطینیوں کی جانب سے مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا اور فلسطینیوں نے نئے انتفادہ کا اعلان بھی کردیا۔

غیر ملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق ٹرمپ کےاعلان نے ترکی، روس اور یورپی یونین کی جانب سے انتباہ کے ساتھ ساتھ تقریباً تمام اقوام عالم کی جانب سے سفارتی طور پر ردعمل سامنے آیا۔

تاہم اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے ٹرمپ کے اعلان کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ اب ان کا نام یروشلم کی طویل تاریخ میں لکھا جائے گا، انہوں نے زور دیا کہ دیگر ممالک بھی اس فیصلے کی پیروی کریں۔

مزید پڑھیں: ’امریکا کا فیصلہ ناجائز اور غیرذمہ دارانہ عمل‘

اسرائیل کی جانب سے غیر یقینی صورتحال سے نمٹنے کے لیے مغربی کنارے سیکڑوں فوجی تعینات کردیے گئے ہیں جبکہ مختلف علاقوں میں فلسطینی اور اسرائیلی سیکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں شروع ہوگئی ہیں۔

احتجاجی مظاہرے غزہ کی پٹی سمیت مغربی کنارے کے شہر رم اللہ، ہیبروم اور بیت اللحم میں کیے گئے جبکہ غزہ میں تقریر کے دوران حماس کے رہنما اسماعیل ہانیہ نے نئے انتفادہ یا بغاوت کا اعلان کردیا۔

اسرائیلی فورسز کی جانب سے سیکڑوں مظاہرین پر آنسو گیس کے شیل داغے گئے جبکہ فلسطینی ریڈ کراس کے مطابق مغربی کنارے میں ہونے والے مظاہروں میں فائرنگ یا ربر کی گولیاں لگنے سے 22 افراد زخمی ہوئے۔

ادھر ترکی کے صدر رجب طیب اردوگان نے کہا کہ امریکا کا فیصلہ خطے کو آگ میں جھونک دے گا، انہوں نے کہا کہ یہ کس طرح کی سوچ ہے، سیاسی رہنما ایسا نہیں کرتے وہ امن قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اس حوالے سے فلسطینی صدر محمود عباس کا کہنا تھا کہ اس فیصلے سے فلسطینی رہنماؤں میں غصہ پایا جاتا ہے، ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کو مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے کردار ادا کرنے کے لیے نا اہل کردیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت کیوں تسلیم نہیں کیا جاسکتا؟

محمود عباس نے اس معاملے پر بات چیت کرنے کے لیے عمان کا دورہ کیا اور اردن کے بادشاہ عبداللہ سے ملاقات بھی کی۔

اپنے مشترکہ بیان میں دونوں رہنماؤں کا کہنا تھا کہ یروشلم کی قانونی اور تاریخی حیثیت کے خلاف اس طرح کا اقدام غلط قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ ٹرمپ کا فیصلہ خطرناک ثابت ہوگا۔

رہنماؤں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری نے قدیم شہر کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم نہیں کیا اور زور دیا ہے کہ اس معاملے کا حل مذاکرات کے ذریعے نکالا جائے۔