چلتے ہیں تو خلا میں چلیے
تلاش و جستجو اور کرۂ ارض کے نئے علاقوں کو مسخر کرنے کا جنون روز اول سے انسان کی فطرت کا خاصہ رہا ہے، انگریزی و اردو ادب کی پوری تاریخ کھنگال ڈالیے، ہر دور میں سفر نامہ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی صنف رہا ہے، معروف ادیب 'الدوز ہگزلے' کہتے ہیں کہ ہر شخص، سفر کا جنون ساتھ لے کر جنم لیتا ہے جو بیک وقت اُس کی ذات کی سب سے بڑی خوبی بھی اور خامی بھی ہے، یہی عیب اُس سے گھر بار کا آرام و سکون اور آسائشوں کی قربانی کے ساتھ بہت سا قیمتی وقت اور بھرپور توانائی بھی مانگتا ہے۔
صدیوں سے سفر کے شوقین مزاج افراد کا چلن رہا ہے کہ وہ دنیا کے ساتھ اپنے تجربات و مشاہدات شیئر کرنے کے لیے روداد سفر ضرور تحریر کرتے ہیں تاکہ اُن کے بعد ان زمینوں کی خاک چھاننے والوں کو نسبتاً کم مسائل اور خطرات کا سامنا ہو، اِسی جنون میں مارک ٹوائن نے بھی 1969ء میں یورپ کے سفر کی داستان 'دی انوسینٹ ابروڈ ' تحریر کی۔
اِسی خواہش نے 1959ء میں الفریڈ لینزنگ کو ارنسٹ شیکلٹن کی برِاعظم انٹارکٹیکا کی جانب پہلی مہم جوئی کی پُرخطر کہانی 'اینجورینس' ولفریڈ تھیسائجر کو 'اریبین سینڈز' اور مستنصر حسین تارڑ کو 'خانہ بدوش' جیسے ماسٹر پیس لکھنے کی طرف بھی مائل کیا۔
حال ہی میں ایک ایسا سفر نامہ منظر عام پر آیا ہے جو کئی حوالوں سے منفرد ہے۔ ’اینجورینس' نامی اِس کتاب کے مصنف معروف خلا باز اسکاٹ کیلی ہیں، جنہوں نے پچھلے برس خلا میں سب سے زیادہ دن قیام کرکے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا تھا۔ یہ کتاب خلا کے انوکھے سفر نامے کے ساتھ اسکاٹ کیلی کی یاد داشتوں کا مجموعہ بھی ہے۔