دنیا

بیت المقدس سے متعلق ٹرمپ کے فیصلے پر دنیا بھر میں تنقید

امریکی صدر کے فیصلے کے بعد ان کا ملک اب امن کی بحالی میں کردار ادا کرنے کا حق کھو چکا ہے، فلسطینی صدر محمود عباس

پیرس: ڈونلڈ ٹرمپ کے مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم) کو اسرائیل کا دارالخلافہ بنانے کے فیصلے پر دنیا بھر میں تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اپنی رپورٹ بتایا کہ دنیا بھر میں ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے پر تنقید کی گئی۔

امن کا خاتمہ

امریکی صدر کے مذکورہ فیصلے پر فلسطینی صدر محمود عباس کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اس فیصلے کے بعد، امریکا اب امن کی بحالی میں کردار ادا کرنے کا حق کھو چکا ہے۔

اپنی تقریر میں انہوں نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات ناقابل قبول ہیں جن کی وجہ سے خطے میں امن کو شدید نقصان پہنچے گا۔

دو ریاستی معاہدے کی تباہی

فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن کے سیکریٹری جنرل کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل اور فلسطینی تنازع میں دو ریاستوں کے معاہدے کی امید کو تباہ کردیا۔

مزید پڑھیں: ٹرمپ کامقبوضہ بیت المقدس کواسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان

صائب عریقات نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے دو ریاست کے معاہدے کو تباہ کردیا ہے۔

جہنم کا دروازہ کھول دیا گیا

حماس کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے نے جہنم کے دروازے کو کھول دیا۔

غزہ پٹی میں چلنے والی فلسطینی اسلامی تحریک کے حکام نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 'خطے کے حوالے سے امریکی مفاد میں ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ فیصلہ جہنم کے دروازے کھول دے گا'۔

بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی

اردن نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اسے بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی قرار دے دیا۔

اردن حکومت کے ترجمان محمد مومنی کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالخلافہ تسلیم کرنے اور امریکی سفارتخانے کو مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کا فیصلہ بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی ہے۔

غیر ذمہ دارانہ اور غیر قانونی

ترکی نے ٹرمپ کے مقبوضہ بیت المقدس کے حوالے سے فیصلے کو غیر ذمہ دارانہ اور غیر قانونی قرار دے دیا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی بیت المقدس کے حوالے سے ممکنہ امریکی فیصلے کی مخالفت

ترکی کے وزیر خارجہ مولود تشاويش اوغلو نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغام دیتے ہوئے کہا کہ 'ہم امریکی انتظامیہ کے غیر ذمہ دارانہ بیان کی مذمت کرتے ہیں، یہ فیصلہ بین الاقوامی قوانین اور اس سے متعلقہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے خلاف ہے'۔

امن کے لیے نامناسب اقدام

برطانوی وزیر اعظم تھریسا مے کا کہنا تھا کہ برطانوی حکومت ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے سے اختلاف رکھتی ہے۔

اپنے بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ہم امریکی سفارتخانے کی مقبوضہ بیت المقدس منتقلی اور بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالخلافہ تسلیم کرنے کے فیصلے سے اختلاف رکھتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ فیصلہ خطے میں امن کے لیے نامناسب اقدام ہے۔

افسوسناک فیصلہ

فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کو افساس ناک قرار دیا اور تشدد کی فضاء سے بچنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرنے پر زور دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'فرانس اور یورپ کو دو ریاستی معاہدے، جس میں اسرائیل اور فلسطین ساتھ ساتھ بین الاقوامی طور پر تسلیم کی گئی سرحد کے ساتھ امن کے ساتھ رہ رہے ہیں، کی حمایت کرتا ہے جس میں مقبوضہ بیت المقدس دونوں ریاستوں کا دارالخلافہ ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا تاریخی فیصلہ

ادھر اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کو جرات مندانہ اور تاریخی قرار دیا۔

نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے سے یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے شہر میں موجود مقدس مقامات کی حیثیت میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔


یہ خبر 7 دسمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی