’گیم چینجر منصوبہ، پاکستان کی تقدیر بدل دے گا‘
تھر کے کوئلے سے بہت جلد بجلی بننے کا آغاز ہونے جا رہا ہے، یہ منصوبہ سندھ کے ساتھ ساتھ ملک بھر کی قسمت بدل دے گا، یہ اور اس جیسے بہت سارے جملے ہمیں اکثر سننے کو ملتے ہیں، لیکن حقیقت میں ایسا ہے بھی یا نہیں، یہ تو آنے والا وقت بتائے گا، کیونکہ کوئلے نکالنے کے لیے کھدائی کا عمل بہت تیزی سے جاری ہے، 110 میٹر کی کھدائی ہو چکی ہے اور فقط 30 میٹر کے بعد سیاہ سونا نکالنے کا عمل بڑے پیمانے پر شروع ہو جائے گا۔
ساگر کوٹھاری تھر میں مٹھی کا رہنے والا نوجوان ہے، جس کے والد کی دُکان تھی، اور یہی دکان ان کے خاندان کے گزر بسر کا سب سے بڑا ذریعہ بھی رہی، ساگر اور اس کے 3 بھائیوں کو ان کے والد نے تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے میں کوئی حجت نہ رکھی، اسی لیے میٹرک اور پھر انٹر میڈیٹ تک تو تعلیم وہ مٹھی سے حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
انٹر میڈیٹ کے بعد تعلیم کے لیے کیا کیا جائے، یہ ایک بڑا سوال تھا، لیکن ساگر مزید تعلیم کے لیے حیدر آباد منتقل ہوئے، یہاں مہران انجینئرنگ یونیورسٹی میں داخلہ لیا، اور وہاں سے انجینئر بن کر نکلے، لیکن یہ اتنا آسان نہیں کہ ایک جملے میں انجینئر بنانے کا تذکرہ ہو، ساگر کے بقول گھر میں مالی حالات اچھے نہیں تھے تو وہ ٹیوشن پڑھا کر اپنے اخراجات پورے کرتے تھے، تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہی عمومی مسئلہ کہ اب نوکری کا کیا کیا جائے۔
لیکن وقت اور حالات ایسے زبردست ہوئے کہ ساگر کوٹھاری کو کہیں اور نوکری تلاش کرنے کی ضرورت پیش نہ آئی، بلکہ اب وہ تھر اپنے علاقے میں ہی بطور انجینئر اعلیٰ نوکری کر رہے ہیں۔
تھر میں بجلی گھر لگنے اور اس سے بجلی کو ملک کے دوسرے حصوں میں پہنچانے کے لیے کام تیزی سے جاری ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ پیدواری پلانٹس چلانے کے لیے درکار کوئلہ نکالنا ایک بڑا کام ہے، اس کے لیے صرف افرادی قوت ہی درکار نہیں، بلکہ وہ مہارت بھی درکار ہے، جس ک مدد سے زیر زمین کوئلے تک پہنچا جائے، اسی وجہ سے چین کی متعدد کمپنیوں کی مدد حاصل کی گئی ہے۔
بہت سے لوگ متعدد بار اعتراض کرتے نظر آتے ہیں کہ مقامی افراد کے روزگار کے مواقع تو پیدا نہ ہوسکے کیونکہ بجلی گھروں کی تعمیر اور کوئلے نکالنے کے عمل میں زیادہ تر چین کے شہری ہی کام کر رہے ہیں، اس پر مقامی سرمایہ کار اداروں کے ترجمان اعداد و شمار کے ساتھ بتاتے ہیں کہ 70 فیصد تک مزدور مقامی ہی ہیں، یہ مہارت کا کام ہے اس لیے مقامی لوگوں کی تربیت کی جا رہی ہے اور ان کو روزگار دیا بھی جا رہا ہے۔
بہت سے لوگ روزگار سے متعلق دعوؤں اور احتجاج پر یہ بھی کہتے ہیں کہ اکثر علاقوں میں وڈیرے یا جاگیردار ہوتے ہیں، جو چاہتے ہیں کہ ان کی تجویز پر لوگوں کو نوکریاں دی جائیں، جو کہ ایک ناانصافی پر مبنی عمل ہوگا، اس لیے اس معاملے کو ذرائع ابلاغ کے ذریعے ایشو بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، تاکہ سرمایہ کار کمپنیوں کو دباؤ میں لایا جائے، جبکہ انتظامیہ بھی اس معاملے پر فوری ایکشن نہیں لے سکتی کیونکہ اس کے سیاسی ’مضمرات‘ سامنے آ سکتے ہیں، تاہم اس معاملے کا حل ہونا تھر کے لوگوں کے لیے اہم ہے، تاکہ سیاسی دباؤ کے بغیر روزگار کا حصول ہو سکے۔
مائننگ انجینئر ساگر کوٹھاری ننگر پارکر میں کوئلے کی فیلڈ میں شفٹ انچارج کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ پاکستان میں مائننگ انجینئرز کے لیے زیادہ نوکریاں نہیں ہیں، تاہم تھر میں کوئلے سے بجلی بنانے کے منصوبے نے اس شعبے میں نوکری کے وسیع مواقع پیدا کر دیئے ہیں۔
اس ریگستانی علاقے میں جہاں عمومی طور پر لوگوں کے پاس چھوٹی گاڑی چلانے کا ہی تجربہ ہوتا ہے، وہاں ایک ایسا منصوبہ شروع ہو چکا ہے، جو کہ اگلی کئی دہائیوں تک چلتا رہے گا اور جو ٹرک ڈرائیورز کی مانگ شدید ترین بڑھا چکا ہے، ساگر کوٹھاری بتاتے ہیں کہ پہلے چھوٹی گاڑی چلا کر مقامی افراد ماہانہ 7 ہزار سے 8 ہزار روپے کماتے تھے، تاہم اب سرمایہ کار کمپنیاں ان ڈرائیورز کو نوکریاں دے رہی ہیں، جو کہ ان ڈرائیورز کو اوسطاََ ماہانہ 35 ہزار روپے تک تنخواہ دے رہی ہیں، صرف ایک کمپنی کے پاس 500 ٹرک ڈرائیورز ہیں، جن میں سے 90 فیصد تھر کے ہی لوگ ہیں۔
صوبائی حکومت نے تھر کو 13 بلاک بنا کر تقسیم کیا ہے اور یہ بلاک مختلف کمپنیوں کو کوئلہ نکالنے کے لیے دیئے گئے ہیں، مجموعی طور پر تھر میں کوئلے کے ذخائر 9 ہزار مربع کلو میٹر پر پھیلے ہوئے ہیں، ان صرف ایک بلاک سے کوئلہ نکالنے کے لیے کام تیزی سے تکمیل کی جانب بڑھ رہا ہے، جہاں سندھ اینگرو کول مائیننگ کمپنی (SECMC) کوئلہ نکالنے کے قریب پہنچ چکی ہے، 145 میٹر کی کھدائی میں سے 108 میٹر کی کھدائی مکمل ہو چکی ہے، کوئلے کے مجموعی ذخائر 175 ارب ٹن ہیں، جن میں سے صرف ایک فیصد کوئلے سے 50 سال کے لیے 5 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکے گی۔