ماڈل ٹاؤن سانحہ کے حوالے سے خفیہ اداروں کے متنازع بیانات
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ میں ماڈل ٹاؤن سانحہ پر انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے متنازع دعوے سامنے آگئے۔
جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسپیشل برانچ نے اس سانحے کے حوالے سے جو رپورٹ پیش کی اس میں صرف پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کی سیاسی سرگرمیوں کا ذکر تھا۔
آئی ایس آئی کی جانب سے پیش کی جانے والی رپورٹ کے مطابق واقعے میں ہلاکتوں کی ذمہ داری پولیس پر ڈالی گئی اور کہا گیا کہ پولیس نے مظاہرین پر فائرنگ کی جس کی وجہ سے 10 افراد ہلاک اور 70 زخمی ہوئے تھے جن میں سے 51 افراد کو گولیوں کے گہرے زخم آئے تھے۔
مزید پڑھیں: سانحہ ماڈل ٹاؤن رپورٹ:حکومت کو قصور وارنہیں ٹھہرایاگیا،رانا ثناء اللہ
آئی ایس آئی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ منہاج القرآن کے محافظ اور سیکیورٹی پر مامور اہلکاروں کی جانب سے فائرنگ کے کوئی ثبوت نہیں ملے۔
دوسری جانب آئی بی نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ عوامی تحریک کے مرکز کی سیکیورٹی پر مامور اہلکاروں نے پولیس کو گولیوں کا نشانہ بنایا جس کی وجہ سے 2 پولیس اہلکار زخمی ہوگئے تھے۔
تاہم اسپیشل برانچ کی رپورٹ نے پولیس اور مظاہرین کے درمیان ہونے والے تصادم پر خاموشی اختیار کی۔
یہ بھی پڑھیں: عدالت کا سانحہ ماڈل ٹاؤن کی انکوائری رپورٹ شائع کرنے کا حکم
آئی ایس آئی نے رپورٹ میں بتایا کہ عوامی تحریک کے رہنماء خرم نواز گنڈا پور نے لاہور ہائی کورٹ کے احکامات کے مطابق اپنے علاقے میں سیکیورٹی بیریئرز لگا رکھے تھے لیکن پولیس ان بیریئرز کو ہٹانے پر ڈٹی ہوئی تھی۔
انکوائری ٹریبیونل میں جمع کرائی گئی آئی ایس آئی کی رپورٹ کے مطابق ماڈل ٹاؤن ایس پی کی موجودگی میں پولیس کے سب انسپکٹر نے اپنی پستول سے گولیوں کے 3 راؤنڈ ہوا میں فائر کیے تھے جس کی وجہ سے کارکنان میں بھگدڑ مچ گئی تھی۔
خیال رہے کہ صبح 9 بجکر 30 منٹ پر پولیس کی بھاری نفری اس وقت کے سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) رانا عبد الجبار کی موجودگی میں طاہر القادری کی رہائش گاہ کے سامنے سے رکاوٹیں ہتانے کے لیے آپریشن کا آغاز کیا تو عوامی تحریک کے کارکنان کی جانب سے مزاحمت کی گئی تھی۔
مزید پڑھیں: طاہر القادری کا سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ کو عام کرنے کے فیصلے کا خیرمقدم
آئی بی کی رپورٹ کے مطابق پولیس منہاج القرآن کے سیکریٹیریٹ کی طرف بڑھ ہی رہی تھی کہ طاہر القادری کی رہائش گاہ کی پہلی منزل پر تعینات ان کے سیکیورٹی گارڈ نے پولیس والوں پر گولیاں برسا دیں جس کی وجہ سے 2 پولیس اہلکار زخمی ہوگئے تھے اور پولیس اہلکاروں میں غصہ پھیل گیا تاہم جب وہ مزید آگے بڑھے تو عوامی تحریک سے ہمدردی رکھنے والوں نے ان پر پتھروں کی بارش کردی تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ پولیس نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے مظاہرین پر فائرنگ کی جس کی وجہ سے کئی افراد زخمی ہوئے اور کچھ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔
یہ بھی پڑھیں: سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ ججز کے تجزیئے کیلئے پیش
آئی بی کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ عوامی تحریک کے 10 افراد اس سانحے میں ہلاک جبکہ 96 زخمی ہوئے تھے جبکہ زخمیوں میں 26 پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔
اسپیشل برانچ کی رپورٹ کے مطابق لندن میں چوہدری شجاعت حسین اور طاہرالقادری کے درمیان ملاقات ہوئی تھی جس میں انہوں نے اپوزیشن جماعتوں کا حکومت مخالف اتحاد کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور اس کام کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔
آئی بی نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی بتایا کہ کمیٹی نے حکومت اور کرپٹ نظام کے خلاف مہم کے انعقاد کے لیے دیگر قائدین سے رابطہ بھی کیا تھا۔
یہ خبر ڈان اخبار میں 6 دسمبر 2017 کو شائع ہوئی