خواتین پر تشدد کے خاتمے کیلئے کیا کرنا ہوگا؟
پاکستان میں خواتین پر جنسی تشدد اور انہیں ہراساں کیے جانے کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کے لیے حکومت اب تک متعدد اقدامات کرچکی ہے، لیکن بدقسمتی سے یہ سنگین ہوتا مسئلہ جہاں ملک کے لیے بدنامی کا باعث بن رہا ہے، وہیں معاشرے میں بھی ایک بدنما روایت کو جنم دے رہا ہے۔
اگرچہ پنجاب حکومت خواتین پر گھریلو تشدد، تیزاب گردی اور انہیں غیرت کے نام پر قتل کیے جانے کے واقعات کے خلاف تحفظِ نسواں جیسے بل بھی منظور کروا چکی ہے، لیکن عام خیال یہی ہے کہ ان قوانین پر مناسب عملدرآمد نہ ہونے کے باعث آج بھی خواتین ایسے واقعات کا نشانہ بن رہی ہیں۔
ان واقعات کی بڑھتی ہوئی شرح کی ایک واضح مثال سال 2016 کے حالیہ اعداد و شمار ہیں، جن کے مطابق ملک میں دہشت گردی سے متاثرہ افراد سے زیادہ تعداد ان خواتین کی تھی، جنہیں غیرت کے نام پر قتل کردیا گیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا ان واقعات میں مجرموں کو سزا نہ ہونا اور قوانین کو نظرانداز کرنا ہی بڑی رکاوٹ ہے یا اصل میں ہمیں کچھ اور کرنے کی ضرورت ہے؟
حسیب خواجہ ایک سماجی کارکن ہیں، جو معاشرے میں خواتین کو درپیش ان مسائل کی وجہ قوانین کے بجائے اُس سوچ اور رویے کو قرار دیتے ہیں، جسے ان مسائل کے جڑ سے خاتمے کے لیے اب تبدیل کرنا ہوگا۔
حسیب خواجہ کہتے ہیں کہ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جسے عورت نہیں، بلکہ خود مرد ہی ختم کرسکتا ہے، لہذا مردوں کو ایسی سوچ سے باہر آنے کے ساتھ ایسے افراد سے خود کو دور کرنا ہوگا جن میں ایسی سوچ پائی جاتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ماضی میں بہت مرتبہ ایسے واقعات کی مذمت کرکے حکومتی سطح پر بلند و بانگ دعوے کیے جاتے رہے، لیکن زمینی حقائق پر نظر ڈالیں تو ہر جگہ عورت کو کمزور سمجھا جاتا ہے اور اسی وجہ سے وہ اپنا کیس لڑنے میں مشکالات کا سامنا کرتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس صورتحال میں ہمارے ریاستی ادارے کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے، کیونکہ جب کوئی متاثرہ عورت یا لڑکی شکایت درج کروانے پولیس اسٹیشن جاتی ہے تو وہ اسے ہی ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ 'جب کسی عورت کیساتھ ریپ کیا جاتا ہے تو وہ اُس کی رضامندی سے نہیں ہوتا اور یہی بات سمجھنے کی ضرورت ہے جس سے معاشرے میں عورت کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے اور جہاں تک سوچ کی بات ہے تو اس کی ایک بنیادی وجہ جہالت بھی ہے، کیونکہ اگر ہم معاشرے میں عورت اور مرد دونوں کے لیے صرف تعلیم کو ہی ٹھیک کردیں تب بھی کافی حد تک ہم مسئلے کے حل تک پہنچ سکتے ہیں'۔