لکھاری نئی دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔
راہول گاندھی واضح طور پر کانگریس کے اگلے صدر بننے والے ہیں۔ نریندرا مودی نے اُن پر چاہے جو بھی الزام لگایا ہو، مگر راہول صرف وہ قربانی کا بکرا محسوس ہوتے ہیں جن کی قربانی دینے سے اُن کی والدہ ہچکچاتی نظر آتی ہیں۔
ماں جانتی ہے کہ ہندوستان جس پُرتشدد سیاست کا اکھاڑہ بن چکا ہے، اُس میں نوجوان گاندھی اپنے بدقسمت والد یا دادی سے زیادہ ہی خطرات کی زد میں ہوں گے، کم نہیں، اور اب جب کہ انہوں نے اپنی آستینیں چڑھا لی ہیں تو اُن کا اگلا کام کثیر الجہتی ہے، جس میں سے دو مسائل فوری توجہ کے طلب گار ہیں — اقتصادی لوٹ مار اور وہ سماجی دراڑیں جو مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے مزید گہری ہوگئی ہیں۔
اقتصادی بدمعاشوں نے سیاست پر اپنی گرفت مضبوط کرلی ہے جبکہ مذہب کے لبادے میں بربریت بھی مضبوط ہوئی ہے جو خود کو بظاہر قوم پرست قرار دیتی ہے۔ یہ دونوں مل کر راہول گاندھی کے لیے ایک فاشسٹ چیلنج ہیں۔ راہول کی دادی نے اُن افراد کی ناجائز رقوم سے بھرے بینکوں کو قبضے میں لے کر زرِ مبادلہ کے تحفظ اور انسدادِ اسمگلنگ قانون (COFEPOSA) کے تحت اُن لوگوں کو بند کردیا تھا۔ یہ قانون ایمرجنسی کے اُن چند ذیلی اقدامات میں سے ایک تھا جن سے اختلاف بہت کم حد تک ممکن تھا، اور اگر اُس پروگرام کو اندرا گاندھی کے کم عقل جانشین بند نہ کر دیتے تو اُس نے ہندو اور مسلمان داؤد ابراہیموں کا راستہ روک دیا ہوتا۔
1985 میں ممبئی میں کانگریس کی صد سالہ تقریبات کے دوران راجیو گاندھی نے کانگریس کارکنوں کی کمر سے ’دولت مندوں‘ کا بوجھ ہٹانے کے عزم کا باآوازِ بلند اظہار کیا تھا۔ اُن دولت مندوں نے فوراً راجیو کے قریبی دوستوں اور قابلِ اعتماد رشتے داروں، اور اپنی ملکیت میں موجود میڈیا کے ذریعے ردِ عمل دیا۔ اُنہوں نے بوفورز اسکینڈل کا سارا الزام راجیو پر ڈال دیا، جبکہ حیرت انگیز طور پر وہ سب دوست اور رشتے دار بچ گئے جو اُس جرم میں حقیقی شریک تھے۔
جب مودی نے گزشتہ ہفتے اپنی انتخابی مہم کے ایک جلسے میں کہا تھا کہ گاندھیوں کے دل میں گجرات کے لیے ہتک ہے، تو وہ آدھے صحیح تھے۔ فیروز گاندھی اس خاندان کی بنیاد ہیں۔ وہ گجراتی طالبِ علم اور مہاتما گاندھی کے اپنے منتخب کردہ شخص تھے۔ یوں مودی کا اس خاندان کی گجرات کے لیے نفرت کا دعویٰ قائل کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ شاید وہ اس روایت کی طرف اشارہ کر رہے ہوں کہ جو فیروز گاندھی نے خود شروع کی تھی، یعنی بے قاعدہ کاروبار پر کڑی نظر رکھنا، جس میں سرِفہرست گجراتی تھے، جو اب مودی کے بدعنوان گروہ کا حصہ بن چکے ہیں۔ شاید یہ عدم اتفاق نہ ہو کہ جن دو بڑے کاروباریوں — وجے ملّیا اور سبراتا روئے — جنہیں آج دوسروں کے لیے نشانِ عبرت بنانے کی کوشش ہو رہی ہے، وہ مودی کے دور میں پروان چڑھنے والوں سے علاقائی یا لسانی طور پر مطابقت نہیں رکھتے۔
صد سالہ تقریر کے بعد لگتا ہے کہ اس گروہ نے عہد کر لیا تھا کہ گاندھی خاندان میں سے کوئی بھی دوبارہ ہندوستان کی سربراہی نہیں کرے گا۔ جب سونیا گاندھی کی اس اعلیٰ ترین عہدے کے لیے کوشش آخری منٹ پر ناکام بنا دی گئی تو اس میں مرکزی کردار ملائم سنگھ یادیو کا تھا، اور ہم جانتے ہیں کہ جن دولت مندوں کے بارے میں راجیو نے خبردار کیا تھا، ملائم سنگھ کے ان سے تعلقات تھے۔
یہ کانگریس اور ہندوستان کے لیے ایک خوش آئند علامت ہے کہ راہول گاندھی نے انتخابی جلسوں اور پارلیمنٹ میں کچھ بدعنوان کاروباری شخصیات کا نام لیا۔ کانگریس کے نئے رہنما نے مودی کو چند کاروباری شخصیات کو غیر منصفانہ انداز میں نوازنے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان شخصیات میں سے ایک کا نام فرانس کے ساتھ جنگی طیاروں کے نئے معاہدے میں بھی لیا جا رہا ہے۔
مگر ان کے لیے گئے ناموں میں ایک نام، جو کہ شاید سب سے بڑا ہے، اب بھی سنائی نہیں دیا۔ یہ ٹائیکون عام آدمی پارٹی اور اس کے رہنما اروند کیجریوال کی سب سے ناپسندیدہ شخصیت ہے۔ راہول گاندھی کی صورت میں یہاں امید کی ایک کرن موجود ہے۔ جہاں تک یاد ہے، یہ پہلی دفعہ ہے کہ اروند کیجریوال نے گجرات میں اپنے حامیوں کو کانگریس کو ووٹ دینے کی ہدایت دی ہے (ان کے الفاظ تھے کہ ’جو بھی‘ بی جے پی کو شکست دے سکے) اور جیسا کہ 'رادیہ ٹیپس' نے انکشاف کیا، اصولوں سے عاری ان ٹائیکونز کی پہنچ بہت گہرائی تک ہے۔ شاید راہول پہلے ہی ان میں سے کچھ کی بھنک محسوس کر رہے ہوں جیسا کہ ان کے والد نے کیا تھا۔ ان کی لڑائی اپنے ہی گڑھ سے شروع ہوگی، چنانچہ وہ فوراً ہی اپنی لڑائی کا رخ دیہی علاقوں کی پریشانیوں کی طرف موڑتے ہوئے بے روزگاری اور اس سے آگے بھی لے کر جائیں گے۔
اگر راہول گاندھی کو مندروں میں جانے سے ووٹروں کی قربت حاصل ہوتی ہے تو اس میں غلط نہیں ہے۔ یہ ہندوستان ہے۔ راہول کے والد نے تو اس سے بھی بڑی غلطی کی تھی۔ انہوں نے تو ایودھیا کے ایک چالاک پجاری سے اپنے سر پر جوتے بھی کھائے تھے، جو درخت سے لٹک کر لوگوں کو اپنے پیروں سے آشیرباد دیتا تھا۔ ایک روشن خیال رہنما جو ہندو ووٹ حاصل کرنے کے لیے سپریم کورٹ کے سیکیولر ہاتھ سے ایک مسلمان مطلقہ کو ملنے والی مدد کی مخالفت کرتے ہوئے یا ایودھیا کے ایک متنازع مندر کے تالے کھولتے دیکھنا تھوڑا عجیب تھا۔ مگر انہیں ووٹ پھر بھی نہیں ملے۔
راہول گاندھی کے لیے بڑا چیلنج براہِ راست مذہبی فاشزم کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ انہیں شروعات شاید تعلیمی اداروں کو ملک کے عالمی طور پر شہرت یافتہ مایہ ناز سیکولر تعلیم دانوں کے حوالے کرنے سے کرنی چاہیے۔ شاید انہیں ان اداروں میں مودی کے دور میں پروان چڑھنے والے تفرقے باز مواد سے صاف کرنے کے لیے ’فیومیگیشن‘ بھی کرنی پڑے۔ گجرات اور دوسری جگہوں میں سیاسی طور پر مضبوط مجرموں کے خلاف مقدمات دوبارہ شروع کرنا ایک ایسا چیلنج ہوگا جس سے وہ بھاگ نہیں سکتے، اور اگر اُن میں اعتماد کی کمی ہو، تو وہ یہ کام کسی ایسے کو تھما سکتے ہیں جس میں اعتماد کی کمی نہیں۔ ممتا بینرجی، اروند کیجریوال یا مایاوتی بھی زبردست اتحادی ہیں۔ کیرالہ کے کمیونسٹ وزیرِ اعلیٰ ایک اور زبردست ساتھی ہوسکتے ہیں اگر ان کی جماعت فاشزم کا مقابلہ کرنے کے لیے کانگریس کا ہاتھ تھامنے کے لیے تیار ہوتی ہے۔
لیکن اگر اپوزیشن جماعتیں ہندوستان ایک اور مظفر نگر ہونے سے بچانے کے لیے ساتھ کھڑی نہیں ہوتیں تو یہ ساری باتیں خیالی پلاؤ ہی ثابت ہوں گی۔ ایک اچھے مستقبل کے لیے ہندوستان کی تقدیر بدلنے کے لیے ضروری ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کا قریبی جائزہ لیا جائے، جو کہ بظاہر اس بدمعاش گروہ کے لیے ہی کام کرتا ہے جس نے عوام کی مرضی کو کہیں دبا دیا ہے۔
اتر پردیش میں حالیہ شہری انتخابات میں برقی طور پر تبدیل شدہ نتائج کی اطلاعات راہول گاندھی کو لاحق پہلے چیلنج کا ثبوت ہے۔ ہندوستان کی روح کی جدوجہد تو اس سے اگلا چیلنج ہے۔
انگلش میں پڑھیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 5 دسمبر 2017 کو شائع ہوا۔