پاکستان

سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی جائے: طاہرالقادری

سانحے کی انکوائری کیلئے سپریم کورٹ کے3ججز پر مشتمل بینچ کا مطالبہ کیا تھا تاہم اسے تسلیم نہیں کیا گیا، سربراہ پی اے ٹی

پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ طاہر القادری نے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے سانحہ ماڈل ٹاؤن پر جسٹس باقر نجفی کمیشن کی انکوائری رپورٹ کو منظر عام پر لانے کے فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے واقعے میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کردیا۔

سانحہ ماڈل ٹاؤن کی انکوائری رپورٹ منظر عام پر لانے کے حوالے سے لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے دیئے گئے فیصلے کے بعد لاہور میں میدیا سے بات چیت کرتے ہوئے طاہر القادری کا کہنا تھا کہ ہم نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی انکوائری کے لیے سپریم کورٹ کے 3 ججز پر مشتمل کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ کیا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا جبکہ اس سے کچھ روز قبل سینئر صحافی حامد میر پر ہونے والے قاتلانہ حملے کی تحقیقات کے لیے کمیشن قائم کر دیا گیا۔

طاہر القادری کا کہنا تھا کہ ہم جسٹس باقر نجفی کمیشن کے روبرو پیش نہیں ہوئے لیکن اس کمیشن کے سامنے وزیراعلیٰ اور وزیر قانون پیش ہوئے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے کئی روز بعد اس وقت کے آرمی چیف (ر) جنرل راحیل شریف کی مداخلت پر اس واقعے کی ایف آئی آر درج کی گئی۔

مزید پڑھیں: عدالت کا سانحہ ماڈل ٹاؤن کی انکوائری رپورٹ شائع کرنے کا حکم

پی اے ٹی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ’ہمارے گھروں پر گولیاں چلائی گئیں اور بے گناہوں کو گولیوں سے چھلنی کیا گیا جس میں ہمارے 14 افراد شہید ہوئے تھے‘۔

پی اے ٹی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ہم خود سانحہ ماڈل ٹاؤن کے کیس کو ایک حکمت عملی کے تحت طول دے رہے تھے اور اس کے لیے انہوں نے کئی وکلا تبدیل کیے۔

انہوں نے کہا کہ وہ چاہتے تھے کہ جب نواز شریف اور شہباز شریف حکومتی عہدے چھوڑ دیں گے تب اس کیس پر کارروائی کو تیز کیا جائے گا۔

طاہر القادری نے سانحہ ماڈل ٹاؤن میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کو لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر مبارکباد دی اور لواحقین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان لوگوں کی طاقت نہ ہوتی تو وہ یہاں تک نہیں پہنچ سکتے تھے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے سے انصاف کا دروازہ کھل گیا ہے تاہم وہ وقت دور نہیں جب شریف برادران جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہوں گے کیونکہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کا بھرم پاناما کیس میں کھل گیا۔

لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ

خیال رہے کہ 5 دسمبر کو جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں لاہور ہائی کورٹ کے فل بینچ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی انکوائری رپورٹ منظر عام پر لانے کی اپیل پر فیصلہ سناتے ہوئے حکم دیا تھا کہ اس رپورٹ کو 30 روز میں شائع کیا جائے۔

لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب حکومت کی انٹرا کورٹ اپیل مسترد کر دی تھی جبکہ سانحہ ماڈل ٹاؤن انکوائری رپورٹ فریقین کو فراہم کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔

عدالتی حکم نامے کے مطابق انسدادِ دہشت گردی عدالت میں اس وقت سانحہ ماڈل ٹاؤن پر جو ٹرائل چل رہا ہے اس پر مذکورہ فیصلہ اثر انداز نہیں ہوگا۔

مزید پڑھیں: سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ ججز کے تجزیئے کیلئے پیش

عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ حکومت کے پاس اختیار تھا کہ وہ سانحہ ماڈل ٹاون کی انکوائری نہ کرواتی لیکن اگر حکومت نے ہائی کورٹ کے جج سے انکوائری کروا لی تو اس کی رپورٹ پبلک کرنا بھی ضروری ہے۔

عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیا تھا کہ انکوائری کے بعد حکومت یہ نہیں کہہ سکتی تھی کہ یہ رپورٹ منظر عام پر نہیں لائی جا سکتی اگر کسی سانحے سے متعلق انکوائری کی گئی ہے تو اس کو پبلک کرنے سے ہی لوگوں کو تسلی ہوگی۔

ماڈل ٹاؤن سانحہ اور انکوائری کمیشن کا قیام

واضح رہے کہ 17 جون 2014 کو لاہور کے علاقے ماڈل ٹاون میں تحریک منہاج القران کے مرکزی سیکریٹریٹ اور پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی رہائش گاہ کے سامنے قائم تجاوزات کو ختم کرنے کے لیے آپریشن کیا گیا تھا۔

آپریشن کے دوران پی اے ٹی کے کارکنوں کی مزاحمت کے دوران ان کی پولیس کے ساتھ جھڑپ ہوئی جس کے نتیجے میں 14 افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ 90 کے قریب زخمی بھی ہوئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ’سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ غیر متعلقہ ہے'

بعدازاں حکومت نے اس واقعے کی انکوائری کروائی، تاہم رپورٹ کو منظرعام پر نہیں لایا گیا، جس کا مطالبہ سانحے کے متاثرین کے ورثاء کی جانب سے متعدد مرتبہ کیا گیا۔

رواں برس اگست میں سانحہ ماڈل ٹاؤن میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین اور زخمیوں کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ میں جسٹس باقر نجفی کی انکوائری رپورٹ منظر عام پر لانے کے لیے درخواست دائر کی تھی۔

ان افراد کی جانب سے دائر کردہ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ 2014 میں ہونے والے ماڈل ٹاؤن سانحے کی تحقیقات کے لیے قائم کمیشن نے انکوائری رپورٹ مکمل کرکے پنجاب حکومت کے حوالے کردی تھی، جسے منظرعام پر نہیں لایا گیا۔

مذکورہ درخواست پر سماعت کے بعد 21 ستمبر کو لاہور ہائی کورٹ نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کو منظرعام پر لانے کا حکم جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ جاں بحق ہونے والوں کے ورثاء اور زخمیوں کا حق ہے کہ انھیں اصل ذمہ داروں کا پتہ ہونا چاہیے۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی جوڈیشل انکوائری رپورٹ عوامی دستاویز ہے، جوڈیشل انکوائری عوام کے مفاد میں کی جاتی ہے اور اسے عوام کے سامنے ہونا چاہیے۔