— فوٹو: اے پی
امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے انسداد دہشت گردی کی حالیہ کارروائیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’پاکستان اپنے قومی مفاد میں گزشتہ چار سال کے دوران حاصل کردہ کامیابیوں کو اور مضبوط بنانے کے لیے ملک بھر میں خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر کارروائیاں جاری رکھے گا۔‘
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں دہشت گردوں کی کوئی محفوظ پناہ گاہ نہیں اور پوری قوم دہشت گردی کی ہر شکل کے مکمل خاتمے کے لیے پرعزم ہے۔‘
یہ بھی پڑھیں: امریکی سیکریٹری دفاع آئندہ ہفتے پاکستان کا دورہ کریں گے
پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف
دورے کے دوران امریکی سیکریٹری دفاع نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی ملاقات کی۔
امریکی سفارت خانے سے جاری بیان کے مطابق آرمی چیف سے جیمز میٹس کی ملاقات میں پاک ۔ افغان تعلقات سمیت اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
بیان میں کہا گیا کہ امریکی سیکریٹری دفاع نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان امریکا کے ساتھ مل کر افغانستان میں قیام امن کے لیے اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے کاوشوں کو مزید تیز کرنا ہوگا۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف اور امریکی سیکریٹری دفاع کی ملاقات میں علاقائی سیکیورٹی بالخصوص افغانستان اور دوطرفہ دلچسپی کے دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاک ۔ امریکا تعلقات کی تاریخ بالخصوص خطے میں امن کے قیام کے لیے جاری مثبت کوششوں کا اعتراف کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے اپنی صلاحیتوں سے بڑھ کر اپنے حصے کا کام کیا ہے اور عالمی برادری کے ذمہ دار رکن کی حیثیت سے امن کے لیے کام کرتا رہے گا۔
انہوں نے خطے میں امن و استحکام کے لیے تعاون جاری رکھنے کے پاکستان کے عزم کا اظہار کیا اور جیمز میٹس کو بھارت کی جانب سے افغان سرزمین کے استعمال، افغان مہاجرین کی باعزت اور جلد واپسی اور سرحد پار افغانستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کی موجودگی پر پاکستان کے تحفظات سے آگاہ کیا۔
امریکی سیکریٹری دفاع نے پاکستان کی مسلح افواج کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں اور دہشت گردی کے خلاف موثر کارروائیوں کا اعتراف کیا۔
انہوں نے تحفظات کا اظہار کیا کہ چند عناصر افغانستان میں دہشت گردی کے لیے پاکستان کی سرزمین استعمال کر رہے ہیں۔
جیمز میٹس نے امریکا کی جانب سے پاکستان کے جائز تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہا کہ ان کا مقصد مطالبات کرنا نہیں بلکہ مل کر کام کرنے کے لیے مشترکہ گراؤنڈز تلاش کرنا ہے۔
آرمی چیف نے پاکستان کے موقف کو سمجھنے پر مہمان وفد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان، امریکا سے صرف یہی چاہتا ہے کہ وہ اس کے موقف کو سمجھے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سرزمین سے دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کا خاتمہ کیا جاچکا ہے، لیکن چند عناصر کی جانب سے پاک سرزمین استعمال ہونے کے امکانات کی تحقیقات کے لیے تیار ہیں۔
فریقین نے ایک دوسرے کے تحفظات دور کرنے کے لیے خصوصی اور جامع اقدامات کرنے پر اتفاق کیا۔
بعد ازاں جیمز میٹس پاکستان کا ایک روزہ دورہ مکمل کرکے کویت کے لیے روانہ ہوگئے۔
گذشتہ روز جیمز میٹس نے بتایا کہ وہ پاکستان کو اقدامات اٹھانے کے لیے زبردستی نہیں کرنا چاہتے کیونکہ انہوں نے امید کی ہے کہ اسلام آباد دہشت گردی کی روک تھام کے لیے اپنا وعدہ پورا کرے گا۔
ایک صحافی کی جانب سے جیمز میٹس کا وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور آرمی چیف قمر باجوہ سے سر جوڑلینے کی تجویز پر انہوں نے منفی رد عمل کا اظہار کیا۔
امریکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق جیمز میٹس نے اسے ان کے طریقہ کار کے خلاف بتاتے ہوئے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ ہم مل کر معاملے کا کوئی حل ڈھونڈ نکالیں گے۔
دو روز قبل پینٹا گون کے جوائنٹ اسٹاف ڈائریکٹر لیفٹننٹ جنرل کینیتھ مک کینزی نے نیوز بریفنگ کے دوران بتایا تھا کہ امریکا، افغانستان میں مزید 3 ہزار فوجی تعینات کر چکا ہے اور افغان سیکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف مشترکہ آپریشن کرنے کے لیے تیار ہے، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغانستان میں امریکا کے 14 ہزار اور 2 ہزار نیٹو اتحاد کے فوجی اہلکار پہلے ہی موجود ہیں۔
امریکا کی جانب سے افغانستان میں مزید فوجیوں کی تعیناتی نئی امریکی پالیسی کا حصہ، جس کا مقصد طالبان کو میدانِ جنگ میں شکست دے کر افغان حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے میز پر لانا ہے اور مذکورہ مقصد کو پورا کرنے کے لیے امریکا کو پاکستان کی مدد درکار ہے اور اسی حوالے سے امریکی سیکریٹری دفاع اسلام آباد میں اعلیٰ سیاسی اور عسکری قیادت سے بات چیت کریں گے۔
مزید پڑھیں: ’پاکستان کی تمام دہشتگردوں کےخلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی جاری ہے‘
اس وقت خیال ظاہر کیا جارہا تھا کہ جیمز میٹس متوقع طور پر پاکستان سے حقانی نیٹ ورک کے خاتمے پر بات کریں جس کے بارے میں امریکا کی جانب سے دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ ان کے اب بھی وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) میں مبینہ محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں اور وہ ان پناہ گاہوں کو افغانستان میں حملے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
تاہم پاکستان، حقانی نیٹ ورک کی مبینہ محفظ پناہ گاہوں کی فاٹا میں موجودگی کے حوالے سے امریکا کے الزامات کو ہمیشہ مسترد کرتا رہا ہے۔
یاد رہے کہ 5 اکتوبر کو پاکستان کے دفترِ خارجہ سے جاری بیان میں بتایا گیا تھا کہ وزیرِ خارجہ خواجہ آصف نے امریکی ہم منصب ریکس ٹِلرسن سے ملاقات میں امریکا کی جنوبی ایشیا سے متعلق پالیسی کا معاملہ اٹھاتے ہوئے انہیں بتایا تھا کہ پاکستان تمام دہشت گردوں اور شدت پسند گروپوں کے خلاف زیرو ٹالرینس کی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے اور ان کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کی جارہی ہے۔