دنیا

مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث جنرل عدالت میں زہرپی کر دم توڑ گئے

کروشیاکے سابق جنرل کوبوسنیامیں مسلمانوں کے قتل عام کے دوران فوجیوں کو تباہی پھیلانے کے لیے احکامات دینے پرسزادی گئی تھی۔

بوسنیا میں مسلمانوں کے قتل عام اور جنگی جرائم میں ملوث کروشیا کے سابق کمانڈر سلوبودان پرالجیک نے اقوام متحدہ کے جج کی جانب سے 20 سالہ سزا برقرار رکھنے کے فیصلے کے بعد کمرہ عدالت میں زہرپی کر جان دے دی۔

کروشیا کی نیوز ایجنسی کے مطابق 72 سالہ سلوبودان پرالجیک نے ہیگ میں انٹرنیشل کریمنل ٹریبیونل میں اپیل کی سماعت کے دوران کمرہ عدالت میں زہریلا مواد پی لیا تھا جنھیں ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ دم توڑ گئے۔

اقوام متحدہ کے ججز بوسنیا میں 1990 میں قتل عام کے جرم میں سزاپانے والے بوسنیا اور کروشیا سے تعلق رکھنے والے 6 سابق فوجی جنرلز اور سیاست دانوں کی جانب سے دائر کی گئی اپیلوں کی سماعت کررہے تھے۔

رپورٹ کے مطابق عدالت کی جانب سے سابقہ فیصلے کو برقرار رکھنے کا اعلان سنتے ہی سیکنڈز میں انھوں نے غصے سے چلایا کہ 'پرالجیک جرائم پیشہ نہیں، میں تمھارے فیصلے کو مسترد کرتا ہوں'۔

جس کے بعد انھوں نے ایک بوتل نکالی اور سماعت کے دوران بوتل کو خالی کرلی اور یہ غیرمعمولی اقدام دیکھ کر جج نے دوسرے مجرم بوسنیا کروٹ کے سابق وزیراعظم جیڈرانکو پرلیس کی 25 سال قید اور سابق وزیر دفاع برونو اسٹوجیک کی 20 سالہ سزا سنانے کے فیصلے کو موخر کردیا۔

یہ بھی پڑھیں:’بوسنیا کے قصائی‘ کی کہانی کا المناک اختتام

پرالجیک کے وکیل نے بھی اس موقع پر چلاتے ہوئے کہا کہ 'میرے موکل کا کہنا ہے کہ انھوں نے زہر پی لی ہے'۔

بعد ازاں انکشاف ہوا کہ سابق جنرل دواؤں کا استعمال کررہے تھے۔

پرالجیک کی خودکشی کے مناظر

سابق جنرل کی جانب سے مذکورہ اقدام کے فوری بعد عدالت کے عملے نے پرالجیک کو گھیر لیا اور جج نے سماعت معطل کردی اور کمرہ عدالت کو عوام کے لیے بند کردیا گیا۔

اے ایف پی کے مطابق صحافیوں نے ہیگ کی عالمی عدالت کے باہر ایک ایمبولینس کو آتے دیکھا جبکہ ایک ہیلی کاپٹر اس کی نگرانی کررہا تھا اور کئی امدادی کارکن ضروری آلات کے ساتھ عمارت میں داخل ہوئے۔

مزید پڑھیں:’بوسنیا کا قصائی‘ نسل کشی کا مجرم قرار

یاد رہے کہ پرالجیک کو نومبر 1993 میں بوسنیا میں 16 ویں صدی میں تعمیر کیے گئے پل کو اڑانے کے لیے احکامات دینے کا جرم تھا اور پہلی سماعت میں جج نے کہا کہ تھا کہ ان کے احکامات مسلمان آبادی کو تباہ کرنے کا باعث بنے تھے۔

عثمانی دور میں تعمیر ہونے والے اس پل کو بوسنیا کے قتل عام کے بعد دوبارہ تعمیر کردیا گیا تھا لیکن شہر میں کروشین اور مسلمانوں کے درمیان بدترین تصادم ہوا اور اس لڑائی میں شہر کے 80 فیصد مشرقی حصہ تباہ ہوگیا تھا۔

تاہم ججوں کی جانب سے پرالجیک کی اپیل کو مانتے ہوئے کہا تھا کہ پل کو نشانہ بنانا ایک فوجی حکمت عملی تھی جبکہ ان کے کئی الزامات کو ختم کردیا تھا لیکن مجموعی طور پر ان کی سزا میں کمی نہیں کی تھی۔

عدالت کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کے قتل عام میں شامل دیگر 6 افراد کی سزاانتہائی سنگین اور دیگر جرائم کی پاداش میں بدستور برقرار رہے گی۔

یہ بھی پڑھیں:بوسنیا میں قتل عام پر سرب رہنما کو 40 سال قید

خیال رہے کہ دیگر تین مجرمان 68 سالہ میلوج، 61 سالہ ویلنٹن کروسیس اور 65 سالہ بیرسلیو پیوسک کے حوالے سے حتمی فیصلہ تاحال نہیں سنایا گیا ہے۔

یاد رہے کہ بوسنیا میں 1992 سے 1995 کے دوران ہونے والی خونی جنگ میں ایک لاکھ کے قریب افراد ہلاک ہوئے تھے اور 22 لاکھ کے قریب بے گھر ہوگئے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی جنھیں سربین کمیونٹی نے نشانہ بنایا تھا جبکہ مسلمانوں اور بوسنیائی کروٹس کے درمیان بھی تصادم ہوا تھا جو ابتدا میں اتحادی تھے۔