سیاسی عدم استحکام سے بیرونی سرمایہ کاری کم ہورہی، سعد رفیق
وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ سیاسی عدم استحکام کے نتیجے میں ملک میں بیرونی سرمایہ کاری میں کمی آرہی ہے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے ریلوے کو بریفنگ دیتے ہوئے سعد رفیق نے کہا کہ 'موجودہ سیاسی صورت حال میں جو لوگ ہماری مدد کرنا چاہتے ہیں وہ پریشان ہیں اور جب ملک میں سیاسی استحکام ہوگا تو لوگ ہماری مدد کریں گے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'اگر روزتماشے لگیں گے تو پھر کوئی بھی خیرخواہ سرمایہ کاری کرتے وقت سوچے گا'۔
وفاقی وزیرریلوے نے کہا کہ 'میں نے محسوس کیا ہے کہ چین میں اب سرمایہ کاری کے لیے جھجک موجود ہے حالانکہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت محنت سے سرمایہ کاری لائی تھی'۔
یہ بھی پڑھیں:اسلام آباد دھرنا: کب، کیا اور کیسے ہوا
انھوں نے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں سرمایہ کاری نہ آئی تو ریلوے 3 سے 4 دہائیاں پیچھے رہ جائے گی.
سعد رفیق نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ چین سے طویل مدتی کم سے کم مارک اپ پر قرضہ لیا جائے، 'اگر ہمیں فائدہ نہ ہوا تو پھر قرض نہیں لیں گے'۔
کراچی سرکلر ریلوے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس معاملے پر سندھ حکومت سے رابطے میں ہیں اور کراچی سرکلر ریلوے پر عجلت میں کوئی فیصلہ نہیں ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ چاہتے ہیں کراچی سرکلر کا سنگ بنیاد تب رکھا جائے جب تمام چیزیں حتمی شکل اختیار کرلیں گی کیونکہ عجلت میں کام خراب نہیں ہونا چاہیے۔
بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سعد رفیق نے کہا کہ دھرنا سیاست نے ریاستی ڈھانچے کو نقصان پہنچایا ہے اور جب جمہوری نظام پر سوال اٹھائے جائیں گے تو سرمایہ کاری کو خطرہ ہو گا۔
رہنما حکمراں جماعت نے کہا کہ یہ سلسلہ جاری رہا تو پاکستان کی معشیت کو نقصان ہو گا۔
انھوں نے اعتراف کیا کہ سول انتظامیہ کے ڈھانچے میں کمزوریاں ہیں اور ریاستی ڈھانچے میں کمزوری کی بنیاد دھرنا سیاست نے رکھی۔
سعد رفیق نے کہا کہ فیض آباد دھرنے کے خاتمے میں سیکیورٹی ایجنسیوں کا مثبت کردار تھا کیونکہ ذاتی طور پر میرے علم میں بہت سی باتیں ہیں اور خون خرابے سے بچنے کے لیے حکومت نے فوجی قیادت سے بات کی تھی۔
مزید پڑھیں:اسلام آباد دھرنا کئی ہفتے بعد ختم، کارواں روانہ
ان کا کہنا تھا کہ مذہب کو استعمال کیا جار ہا ہو تو پھر شاید کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں رہتا اور ریاستی مفاد کا تحفظ کرنے والوں کو کٹہرے میں کھڑا کر کے ان سے کارکردگی کی توقع نہ رکھی جائے۔
دھرنے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اپنا رویہ بھی وہ لوگ دیکھیں جو سول انتظامیہ کو کمزور کر رہے ہیں، فساد اور انتشار کو روکنے کے لیے ایسے اقدامات اٹھانے پڑتے ہیں جو کتاب سے باہر ہوں اور ہمارے اس فیصلے کو کوئی ٹھیک سمجھے گا اور کوئی ٹھیک نہیں سمجھے گا۔
انھوں نے مشکلات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کمرے میں بیٹھ کر بات کرنا آسان ہے اورچیزوں کا سامنا کرنا بہت مشکل ہوتا ہے خواہ وہ دھرنا دینے والے لوگ ہوں یا ایسے فیصلے دینے والے جو ریاست کو کمزور کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ رانا ثنا اللہ کئی بار اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کر چکے ہیں اور عدالت سڑک پر نہیں بلکہ عدالت میں ہی لگے گی اور لاہور والا دھرنا بھی خوش اسلوبی سے ختم کر لیں گے۔