لاہور کا باغِ جناح: میری خوشگوار یادوں کا امین
لاہور کا باغِ جناح: میری خوشگوار یادوں کا امین
لاہور کا کوئی ٹؤر ہو اور باغِ جناح سے ملاقات کیے بغیر واپس آجاؤں، ایسا ممکن نہیں۔ باغِ جناح لاہور کے دل میں بستا ہے، کئی برس قبل جب میں اِسی باغ میں زرعی افسر تھا، تب اِس باغ کے متعلق ایک فقرہ لکھا تھا کہ باغِ جناح لاہور کا دل ہے اور اِس کے پھیپھڑوں کا کام بھی کررہا ہے، بس یہ خیال اور فقرہ باغ کی یاد کے ساتھ جڑا رہتا ہے۔
میں نے پہلی بار باغِ جناح غالباً 15 یا 16 برس کی عمر میں دیکھا تھا۔ یونیورسٹی ٹؤر کا بہانہ بنا اور اِس باغ کے درشن ہوئے۔ اِسے پاکستان کا سب سے بڑا باٹنیکل باغ بھی سمجھا جاسکتا ہے۔ یہاں موجود سینکڑوں درخت، جھاڑیاں، بیلیں، پھول، نہ صرف اِس باغ کو خوشنما بنائے ہوئے ہیں بلکہ پاکستان کی نباتات کے لیے ایک محفوظ بینک کی صورت بھی ہیں۔
باغِ جناح سے دوسرا رابطہ 2006 کے اوائل میں ہوا، جب سی ایس ایس کی تیاری کے سلسلے میں قائدِاعظم لائبریری سے استفادہ کرنے ہم روز باغِ جناح آیا کرتے تھے۔ وہ ایک سال باغ کی چہچہاتی شامیں، بچپنے کی کسی یاد کی طرح ذہن کا حصہ ہیں۔ اِس شاداب ماحول میں خُشک ملکی مسائل اور سی ایس ایس سے جڑے درجنوں سوالات، نئے جوابوں سے روشناس ہوتے۔ اِسی باغ نے زندگی کے کئی خوبصورت دوستوں سے نوازا، ذوالفقار، ساجد، حسنین، فہد، جواد، اور درجنوں دوست جو سی ایس ایس کی تیاری کے بہانے یادداشت سے جڑ گئے اور پیاروں سے زیادہ پیارے بن گئے۔