پاکستان

اسلام آباد دھرنا: کیا ذرائع ابلاغ کو بند کرنا واحد حل تھا؟

اسلام آباد آپریشن کے دوران ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا کی اچانک بندش سے کئی سوالات نے جنم لیا۔

گذشتہ ہفتے اسلام آباد میں فیض آباد کے مقام پر مذہبی جماعت کے دھرنے کے خلاف پولیس کے آپریشن کو مظاہرین کے خلاف ایک ناکام کوشش قرار دیا گیا، وہیں اس پورے منظر نامے میں نجی نیوز چینلز کی نشریات اور سوشل میڈیا ویب سائٹس کو بند کرنے پر بھی کئی سوالات نے جنم لیا۔

بعض لوگوں کی رائے میں اگر حکومت کو اس طرح کا کوئی آپریشن کرنا تھا تو اسے میڈیا مالکان کے ساتھ بات کرکے لائیو کوریج سے متعلق ایک ضابطِ اخلاق طے کرنا چاہیے تھا تاکہ ایسی صورتحال کی نوبت ہی نہ آتی۔

لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ آیا یہ غلطی آخر ہوئی کس سے اور کیا یہ اقدام ایک واحد راستہ تھا؟

ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز وائز' میں گفتگو کرتے ہوئے سوشل میڈیا کے ایکسپرٹ اسد بیگ کا اسی حوالے سے کہنا تھا کہ ان کی نظر میں غلطی دونوں ہی جانب سے ہوئی، کیونکہ آپریشن کے فوراً بعد ٹی وی چینلز نے جس طرح کی کوریج شروع کی اُس میں صحافتی اصولوں اور معیار کا ذرا بھی خیال نہیں رکھا گیا۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں سوشل سائٹس بند

انہوں نے کہا کہ آپریشن کے دوران جو مناظر دیکھائے گئے ان پر لوگ جو کچھ سوشل میڈیا پر لکھ رہے تھے، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام کا میڈیا پر یقین ختم ہوتا جارہا ہے۔

تاہم، انہوں نے کہا کہ دوسری غلطی پیمرا کی تھی جس نے ملک میں الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی ہونے کے باوجود یہ اقدام اٹھانے سے پہلے پاکستان براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشن (پی بی اے) کو کسی قسم کی گائیڈلائنز فراہم نہیں کیں اور نہ ہی پہلے سے ان سے کوئی بات کی گئی تھی، لہذا جو نوٹس ملا وہ بھی اچانک سے آپریشن کے دوران جاری کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'جب مظاہرین 20 روز سے فیض آباد پر موجود تھے اور آپریشن کے بارے میں مشاورت جاری تھی ، تب پیمرا کیوں خاموش تھا اور اُس وقت اس نے دھرنے کی لائیو کوریج کے حوالے سے فیصلہ کیوں نہیں کیا'۔

اسد بیگ نے کہا کہ صرف پی بی اے ہی نہیں، بلکہ دیگر صحافتی تنظیمیں، جن میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (پی ایف یو جے) بھی شامل ہے، انہیں بھی پہلے سے کسی نے آگاہ نہیں کیا کہ اگر آپریشن ہوا تو میڈیا کو کس طرح کی کوریج کرنی چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی ریگولیٹری اتھارٹی کا کام ٹی وی چینلز کو بند کرنا ہرگز نہیں ہوتا، کیونکہ اگر یہ ہی کرنا ہے تو یہ کام وزارتِ اطلاعات بھی کیبل آپریٹرز کے ذریعے سے کروا سکتی ہے۔

اسد بیگ کا کہنا تھا کہ جو کچھ حالیہ دنوں میں ہوا اس کی مثالیں ماضی میں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں اور خاص طور پر جب فوجی آپریشنز ہورہے تھے اور ان میں جو مناظر براہ راست نشر کیے گئے، اُن پر بھی صحافتی تنظیموں اور ٹی وی چینلز سے بات کرنی چاہیے تھی اور اگر ایسا پہلے کیا جاتا تو آج یہ حالات پیدا ہی نہ ہوتے۔

اس سوال پر کہ اگر صرف چند ٹی وی چیلنز خلاف ورزی کررہے تھے تو پھر انہیں بھی کسی قسم کی ہدایات دینی چاہیے تھی ؟ تو اسد بیگ نے کہا کہ یہ بات بہت ہی تشویشناک ہے کہ جب کوئی ایک خلاف ورزی کررہا تھا تو اس کی سزا تمام چینلزکو کیوں دی گئی۔

سوشل میڈیا کو بند کرنا غیر قانونی عمل

انہوں نے مزید کہا کہ باقی ممالک میں ایسی ہنگامی صورتحال میں معلومات کے مزید ذرائع بنائے جاتے ہیں تاکہ لوگوں کو آگاہی دی جاسکے، مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ناصرف ٹی وی چینلز بلکہ تمام سوشل میڈیا کو بھی بند کردیا گیا۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگرچہ ایسے اقدامات آمرانہ دور میں بھی دیکھنے کو ملے، مگر اس مرتبہ جو کچھ ہوا اس نے ایک روایت کو قائم کیا ہے، لہذا اب جب بھی ایسی صورتحال ہوئی تو اس آپشن کو دوبارہ بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

اسد بیگ کا کہنا تھا کہ حکومت نے جس طریقے سے تمام سوشل میڈیا ویب سائٹس کو ایک ساتھ بند کیا وہ بظاہر قانون میں موجود نہیں، کیونکہ اگر تو کہیں سائبر کرائم جیسے واقعات ہوں تب حکومت صرف اس کام کی روک تھام کے لیے کسی ایک صفحے یا سائٹ کو بند کرنے کا حق رکھتی ہے، مگر جہاں تک معلومات کا سوال ہے تو یہ ایک غیر قانونی عمل تھا۔

یہ بھی پڑھیں: 28 گھنٹوں بعد ملک میں سوشل سائٹس بحال

خیال رہے کہ 25 نومبر کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے فیض آباد انٹر چینج پرمذہبی جماعتوں کے دھرنے کو ختم کرانے کے لیے کیے گئے سیکیورٹی اداروں کے آپریشن کے بعد ملک بھر میں تمام نجی چینلز اور سوشل ویب سائٹس کی نشریات کو بند کردیا گیا تھا۔

پی ٹی اے ذرائع کا کہنا تھا کہ سوشل سائٹس کو امن وامان کی صورتحال کے پیش نظر وزارت داخلہ کے احکامات پر بلاک کیا گیا تھا، جب کہ فیض آباد اوراس کے گردونواح میں انٹرنیٹ کی سروس بھی معطل کردی گئی تھی۔

ملک میں اچانک ٹی وی چینلز کی نشریات اور سوشل سائٹس پر پابندی کے بعد عوام شدید مشکلات میں رہا، ویب سائٹس کو 25 نومبر کی شام 7 بجے کے قریب بلاک کیا گیا تھا۔

تاہم 26 نومبر کو پی ٹی اے نے متعلقہ حکام کو سوشل سائٹس بحال کرنے کا حکم دیا، جس کے بعد رات 8 بجے کے بعد سوشل سائٹس کو بحال کرنے کا آغاز کیا گیا۔

سوشل سائٹس کو مرحلہ وار بحال کیا گیا، سب سے پہلے فیس بک کو بحال کیا گیا۔