پاکستان

پاکستان اور بھارت میں ایٹمی جنگ کا خطرہ نہیں

اس وقت دنیا کی صورتحال جنگ عظیم اول یا ’پہلے ایٹمی دور‘ سے قبل کی صورتحال سے بہت مختلف ہے، رپورٹ

واشنگٹن میں ایک معتبر تھنک ٹینک دی اٹلانٹک کونسل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی جنگ کے امکانات نہیں ہیں۔

اٹلانٹک کونسل نے نئی دہلی، اسلام آباد اور بیجنگ میں کئی سیمینار منعقد کرتے ہوئے اپنی رپورٹ مرتب کی جس میں ان کا کہنا تھا کہ ان اجلاس میں شرکت کرنے والے جنوبی ایشیا کے حالات کے ماہرین ذرائع ابلاغ اور پالیسی کانفرنسز کے دوران ’ایٹمی جنگ‘ کے ابھرتے ہوئے خدشات کے حوالے سے مثبت دکھائی دیئے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ چین اور بھارت جبکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سرد مہری رہنے کے باوجود تینوں ممالک بین الاقوامی نظام کے اسٹیک ہولڈرز ہیں جبکہ تینوں ہی کثیر جہتی ادارے اور معاشی نظام بنانے کے لیے پُرعزم ہیں۔

مزید پڑھیں: پاکستان کی ایٹمی صلاحیت، پاکستان کی حفاظت کی ضامن

ان کانفرنسز میں شریک ماہرین کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس وقت اقوامِ عالم کی صورتحال جنگ عظیم اول یا ’پہلے ایٹمی دور‘ سے پہلے کی صورتحال سے بہت مختلف ہے۔

اسی تناظر میں ماہرین کا ماننا ہے کہ ایٹمی جنگ کے خطرے کا ابہام حقائق کی بنیاد پر پورا نہیں اترتا یا کم از کم اس وقت تو بالکل نہیں جب ان حقائق کو ان کے اصل تناظر میں دیکھا جائے۔

رپورٹ میں متنبہ کیا گیا کہ خطے کے استحکام کو بڑے اور جدید ایٹمی ہتھیاروں سے خطرہ لاحق نہیں ہے لیکن ان ہتھیاروں کی نگرانی پر مامور اداروں کا مستحکم رہنا انتہائی ضروری ہے۔

تاہم ماہرین نے چین اور بھارت کی بڑھتی ہوئی جارحانہ قوم پرستی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک اس کی وجہ سے تصور کی جانے والی تباہ کن لڑائی کی جانب بڑھ سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاک بھارت جنگ: معاملہ روایتی ہتھیاروں تک محدود نہیں رہے گا

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایٹمی جنگ کا خطرہ جنوبی ایشیا میں ہے جہاں پاکستان اور بھارت کے درمیان طویل عرصے سے جاری تنازعات کی وجہ سے تعلقات گشیدہ ہیں۔

رپورٹ میں 2 مخصوص خطرات کو واضح کیا گیا ہے:

رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان نے ٹیکٹکل جوہری ہتھیار بنا لیے ہیں تاہم اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ پاکستان کے پاس یہ ہتھیار تیار حالت میں ہیں۔

تاہم اس رپورٹ میں ایک مثبت پہلو اجاگر کیا گیا جس کے مطابق پاکستان اور بھارت نے اپنے ایٹمی ہتھیاروں میں بہتری لانے کے لیے مزید جوہری ٹیسٹ نہیں کیے۔


یہ خبر 27 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی