پاکستان

چیف ایگزیکٹو کا حکم ماننے کے بجائے آرمی چیف ثالث بن گئے: جسٹس شوکت صدیقی

کہاں گیا ان کا ’رد الفساد‘ یہاں ان کوفساد نظر نہیں آیا؟ یہ تو اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے پیچھے یہی تھے، عدالت کے ریمارکس
| |

فیض آباد دھرنا ختم کرنے کے سلسلے میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ آرمی چیف ملک کے چیف ایگزیکٹو کا حکم ماننے کے بجائے ثالث بن گئے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی مذہبی جماعتوں کے دھرنے کے خلاف درخواست پر سماعت کر رہے تھے۔

جسٹس شوکت صدیقی نے آئی بی کو ہدایت جاری کرتے ہوئے دھرنے سے متعلق سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی آڈیو کے بارے میں پتہ لگا کر عدالت کو آگاہ کرنے اور فیض آباد آپریشن کی ناکامی کی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فوج کون ہوتی ہے ثالثی کا کردار ادا کرنے والی، کیا فوج اقوامِ متحدہ ہے جو ثالثی کروا رہی ہے۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد دھرنا: پولیس کاآپریشن معطل، 150 افراد گرفتار

انہوں نے استفسار کیا کہ پاکستانی قانون میں ایک میجر جنرل کو ثالث بنانے کا اختیار کہاں دیا گیا ہے، جس بندے کا کورٹ مارشل ہونا چاہیے تھا اسے ثالث بنا دیا گیا۔

جسٹس شوکت صدیقی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کہاں گیا ان کا ’رد الفساد‘ یہاں ان کو فساد نظر نہیں آیا؟ یہ تو اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے پیچھے یہی تھے۔

سیکشن 4 کے تحت انتظامیہ کو ہنگامی صورتحال میں فوج بلانے کا اختیار حاصل ہے جبکہ سیکشن 5 کے تحت فوج انتظامیہ کا حکم ماننے کی پابند ہے۔

انہوں براہِ راست فوج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ فوج اپنی آئینی حدود میں رہے کیونکہ اب عدلیہ میں جسٹس منیر کے پیروکار نہیں ہیں اور جن فوجیوں کو سیاست کا شوق ہے وہ حکومت کی دی ہوئی بندوق واپس کرکے ریٹائرڈ ہوجائیں اور سیاست کا شوق پورا کرلیں۔

وفاقی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ حکومت انوشہ رحمٰن کو بچانے کے لیے زاہد حامد کی قربانی دے رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد دھرنا: اسلامی نظریاتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب

جسٹس صدیقی نے کہا کہ انوشہ رحمان ڈرٹی گیم کھیل رہی ہے ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق کیس میں انوشہ رحمٰن کے کردار پر نکتہ اٹھایا تھا۔

عدالت کے جج کے اس سوال پر کہ احسن اقبال آپ بتائیں قانون میں کہاں یہ اختیار دیا گیا؟ جس پر وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ اندرونی سیکیورٹی کے حالات بن رہے تھے، روزانہ کسی کرنل، میجر، ایڈیشنل آئی جی پر حملے ہو رہے ہیں اور ایک ایٹمی قوت کی حامل ریاست کو ناکام دکھانے کے لیے ملک میں اندرونی حالات خراب کرنے کی سازش ہو رہی ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ موٹرویز، ریلویز اور شہروں کو بند کیا جا رہا تھا اس لیے مظاہرین کے ساتھ جو معاہدہ ہوا وہ ملک کو ان حالات سے نکالنے کے لیے کیا گیا۔

وفاقی وزیر داخلہ نے بتایا کہ اس خاتون کا بیٹا ہوں جس نے ختم نبوت کے قانون کی قرارداد پیش کی تھی، جس پر جسٹس شوکت صدیقی نے کہا کہ آپ عظیم ماں کے بیٹے اور عظیم تر نانا کے نواسے ہیں۔

جسٹس شوکت صدیقی نے آئی بی کو مظاہرین کے پاس ٹیئر گنز، آنسو گیس شیل اور ماسک کی موجودگی کی تحقیقات کرکے اس کی رپورٹ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

مزید دیکھیں: دھرنا مظاہرین کے ساتھ معاہدہ کس جگہ پر ہوا؟

جج کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئی بی میں بھی بہت کچھ ہو رہا ہے اور آئی بی والے اپنا کام کرنے کے بجائے آئی ایس آئی سے لڑائی میں مصروف ہیں۔

جسٹس شوکت عزیز نے کہا کہ ’مجھے پتہ ہے ان ریمارکس کے بعد میں بھی لاپتہ افراد میں شامل ہو جاؤں گا، یا مارا جاؤں گا‘۔

اس سے قبل جسٹس شوکت عزیز صدیقی مذہبی جماعتوں کے دھرنے کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران وفاقی وزیر داخلہ کی عدم پیشی پر اظہارِ برہمی کرتے ہوئے انہیں 15 منٹ کے اندر عدالت میں حاضر ہونے کا حکم دیا تھا۔

وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال عدالتی احکام کی تعمیل کرتے ہوئے مقررہ وقت میں اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچے اور عدالت کو یقین دہانی کرائی کہ وفاقی حکومت اور مظاہرین کے درمیان معاہدہ ہو گیا ہے اور کچھ ہی دیر میں دھرنا ختم ہوجائے گا۔

عدالتی کارروائی کے دوران احسن اقبال نے عدالت کو بتایا کہ قومی قیادت کی مشاورت سے صورتحال کی فوری بہتری کے لیے مظاہرین کے ساتھ تحریری معاہدہ کیا گیا ہے جس میں قومی قیادت نے اہم کردار ادا کیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اب انشاء اللہ کچھ دیر میں فیض آباد سے مذہبی جماعت کا 20 روز سے زائد جاری رہنے والا دھرنا ختم ہوجائے گا۔

سماعت کے دواران انسپکٹر جنرل (آئی جی) اسلام آباد خالد خٹک، چیف کمشنر ذوالفقار احمد بھٹہ اور ڈپٹی کمشنر کیپٹن (ر) مشتاق بھی عدالت میں موجود تھے۔

عدالت نے وفاقی وزیر داخلہ کے علاوہ ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) آفتاب سلطان اور سیکریٹری کمانڈر انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کو بھی عدالت میں طلب کررکھا تھا۔

عدالتی حکم نامہ جاری

اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیض آباد دھرنے کے خلاف شہریوں کی جانب سے دائر درخواست پر تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے حکومت اور مظاہرین کے درمیان ہونے والے معاہدے کی شرائط پر سنگین اعتراضات اٹھائے ہیں۔

عدالتی اعتراض میں میجر جنرل فیض حمید کے معاہدے پر دستخط کرنا شامل ہیں جبکہ معاہدے میں پاک فوج کے سربراہ کی ثالثی کے کردار کو سہرائے جانے پر عدالت نے حیرانی کا اظہار کیا۔

عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ بادالنظر میں فوج نے جو کردار ادا کیا وہ آئین و قوانین کے مطابق نہیں جبکہ مسلح افواج ملکی قوانین کے تحت مینڈیٹ سے باہر نہیں جاسکتیں۔

حکم نامے میں کہا کہ اعلیٰ عدالت کے خلاف ناشائستہ زبان استعمال کی گئی تھی لیکن حکومت اور ثالثی نے معاہدے میں دھرنے والوں سے معافی مانگنے کا بھی مطالبہ نہیں کیا۔

عدالتی حکم نامے یہ بھی کہا گیا کہ حکومت اور فوجی کے آئینی کردار اور فوج کے بطور ثالث کردار ادا کرنے پر عدالت کو مطمئن کیا جائے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئی بی سے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک آڈیو کی تحقیقات کرنے کا حکم دیا جبکہ دھرنے کے خلاف ناکام آپریشن اور مظاہرین کو مدد فراہم کرنے کی رپورٹ بھی طلب کر لی۔

بعد ازاں عدالت نے سماعت کو آئندہ ہفتے 4 دسمبر تک ملتوی کردیا۔

گزشتہ سماعت کے دوران عدالت نے فیض آباد انٹر چینج پر مذہبی جماعتوں کا جاری دھرنا ختم کرانے کے عدالتی احکامات پر عمل در آمد نہ کرنے پر وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کو توہین عدالت کا شو کاز نوٹس جاری کردیا تھا۔

علاوہ ازیں عدالت نے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سینٹر کمانڈر کو آئندہ کی سماعت پر طلب کیا تھا اور راجہ ظفرالحق کی رپورٹ کو بھی 27 نومبر تک پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

یاد رہے کہ اس سے قبل 20 نومبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں مذہبی جماعتوں کے دھرنے کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے اظہارِ برہمی کرتے ہوئے احسن اقبال سے کہا تھا کہ کورٹ کا احترام نہیں ہورہا، آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے گی، ان تنظیموں کو سیاسی جماعتوں کے طور پر ڈیل کیا جائے۔

عدالت میں سماعت کے دوران پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے احسن اقبال کا کہنا تھا کہ سازشی عناصر پاکستان میں ایک مرتبہ پھر سانحہ ماڈل ٹاؤن اور لال مسجد جیسا واقعہ کروانا چاہتے ہیں تاہم پاکستان بھر کے علماء اور مشائخ کو طلب کیا گیا ہے تاکہ معاملے کا پُرامن حل نکلا جا سکے۔

تاہم وفاقی وزیر داخلہ نے عدالت سے 48 گھنٹے کی مہلت مانگتے ہوئے کہا تھا کہ وہ کوشش کر رہے ہیں کہ راستہ کلئیر کرالیں گے۔

بعد ازاں عدالت نے فیض آباد دھرنا ختم کرانے کے لیے انتظامیہ کو 23 نومبر تک کا وقت دے دیا تھا۔

فیض آباد مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن

واضح رہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعتوں کا دھرنا گزشتہ 7 نومبر سے جاری تھا، دھرنا ختم کروانے کے عدالتی حکم پر جب انتظامیہ کی جانب سے مظاہرین کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا گیا، تو مشتعل افراد نے ملک کے دیگر شہروں میں بھی مظاہرے شروع کر دیئے۔

فیض آباد میں 7 گھنٹے طویل آپریشن کے بعد اسے معطل کر دیا گیا جبکہ سیکڑوں مظاہرین کو گرفتار بھی کیا گیا، لیکن ملک کے دیگر شہروں میں بھی صورتحال کشیدہ ہوگئی اور کئی شہروں میں معمولاتِ زندگی معطل ہوگئی۔

بعدِ ازاں وفاقی حکومت نے ڈی جی پنجاب رینجرز کو نگراں مقرر کردیا جس کے بعد ان کے اور دھرنا مظاہرین کے درمیان مذاکرات ہوئے اور حکومت نے مظاہرین کا مطالبہ تسلیم کرتے ہوئے وزیرِ قانون زائد حامد کو وزارت سے برطرف کردیا۔