—فوٹو:ڈان نیوز
فرنٹیئر کور (ایف سی) اور اسلام آباد پولیس کو اگلی پوزیشن سے ہٹا دیا گیا جبکہ وہ اس وقت فیض آباد پر رینجرز اہلکاروں سے پچھلی پوزیشنز پر چلے گئے ہیں۔
رینجرز حکام نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا تھا کہ گزشتہ روز پولیس، انتظامیہ اور رینجرز حکام کا اجلاس ہوا تھا جس میں رینجرز کی تعیناتی کا فیصلہ کیا گیا تاہم اب ایک ہزار سے زائد پیرا ملٹری اہلکار فیض آباد کے اطراف میں تعینات ہیں جس کا مقصد جلاؤ گھیراؤ کو روکنا ہے۔
عدالتی حکم کے بعد فیض آباد دھرنے کو ختم کرنے کے لیے پولیس کارروائی کے دوران مظاہرین کے ساتھ جھڑپ کے نتیجے میں اب تک 6 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ متعدد افراد زخمی ہیں۔
مزید پڑھیں: دھرنا مظاہرین کا بھارت سے رابطہ ہے، احسن اقبال کا دعویٰ
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں حافظ محمد عدیل، جہانزیب بٹ، عبدالرحمٰن، محمد شرجیل، زوہیب احمد اور محمد عرفان شامل ہیں۔
دھرنے کے دوران پولیس کے ایک اعلیٰ سینیئر افسر سمیت 9 پولیس افسران اور ایک پولیو ورکر بھی شدید زخمی ہوا ہے۔
مظاہرین نے شمس آباد کے میٹرو بس اسٹیشن پر قبضہ کر لیا تھا جس کے بعد انہیں راولپنڈی پولیس چیف اسرار عباسی کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش کی گئی تھی۔
تاہم مظاہرین کی جانب سے پولیس اہلکاروں پر گھات لگا کر حملہ کیا گیا جس کے نتیجے میں راولپنڈی پولیس چیف زخمی ہوگئے تھے جبکہ ان کے ہمران موجود ایس پی سید علی بھی زخمی ہوگئے تھے۔
ایک سینیئر پولیس افسر نے ڈان کو بتایا کہ اب تک مظاہرین کے ساتھ تصادم میں ایک بھی ایف سی یا پولیس اہلکار جاں بحق نہیں ہوا۔
فیض آباد میں ابھی بھی مظاہرین کی جانب سے دھرنا جاری ہے جبکہ دھرنا مظاہرین نے 26 نومبر کو ایک گاڑی اور 4 موٹر سائیکلوں کو نذر آتش بھی کیا۔
مشتعل مظاہرین نے صبح 8 بجے سیکٹر آئی 8 کے قریب کھڑی گاڑی کو آگ لگائی جبکہ کچنار پارک کے قریب کھڑی 4 موٹر سائیکلوں کو بھی آگ لگائی۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت اور مظاہرین تشدد کا راستہ اپنانے سے گریز کریں: آرمی چیف
اسلام آباد میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) ہسپتال کے ترجمان کے مطابق اب تک 190 زخمی لائے گئے تھے جن میں 73 پولیس اور 64 ایف سی اہلکار بھی شامل ہیں۔
ترجمان کے مطابق 188 زخمیوں کو طبی امداد دینے کے بعد ڈسچارج کردیا گیا جبکہ اس وقت 2 زخمی پمز ہسپتال کی ایمرجنسی میں زیر علاج ہیں۔
پولیس حکام کے مطابق سوہان کے قریب ناکے پر کھڑے 2 پولیس اہلکاروں کو دھرنے کے شرکاء اٹھا کر لے گئے جبکہ دونوں اہلکاروں کی واپسی کیلئے دھرنے والوں سے بات چیت جاری ہے۔
دھرنے کے شرکاء نے سیف سٹی کے قیمتی کمیرے بھی توڑ ڈالے جن میں سے 3 کیمرے گارڈن ایونیو کے ناکے پر نصب تھے جب کی مالیت لاکھوں روپے بنتی ہے۔
مزکورہ کیمروں کو توڑنے کا واقع صبح کے وقت پیش آیا اور ان ہی کیمروں کی مدد سے لانگ رینج سے دھرنے کی ریکارڈنگ بھی جاری تھی۔
چوہدری نثار کی احسن اقبال کے بیان اظہار برہمی
سابق وفاقی وزیر چوہدری نثار علی خان نے فیض آباد دھرنے میں آپریشن کے بعد ہونے والے احتجاج کے نتیجے میں ان کے گھر میں کسی ہلاکت کے تاثر کو مسترد کرتے ہوئے وزیرداخلہ احسن اقبال کے بیانات پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔
چوہدری نثار نے اپنے بیان میں کہا کہ میرے گھر میں کوئی ہلاکت تو درکنار کوئی شخص زخمی تک نہیں ہوا۔
سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ احسن اقبال اپنی نااہلی چھپانے کے لیے بے سروپا بیانات سے گریز کریں۔
انھوں نے کہا کہ کیا یہ وہی شخص نہیں جس نے کہا تھا کہ میں تین گھنٹوں میں دھرنا کلئیر کرا دوں گا اور اب آپریشن کا سارا بوجھ عدالت پر ڈال رہے ہیں۔
چوہدری نثار کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ انتہائی بدقسمتی ہے کہ ملک کا وزیر داخلہ اتنا بے خبر اور غیر ذمہ دار ہے حالانکہ احسن اقبال کے عہدے کا تقاضا تھا کہ آپریشن پر بہانے بنانے کے بجائے اپنی انتظامیہ کے ساتھ کھڑے ہوتے۔
جس کے فوری بعد احسن اقبال نے جواب میں کہا کہ پنجاب حکومت 4ہلاکتوں کی تحقیقات کررہی ہے جبکہ بعض اطلاعات کے مطابق یہ ہلاکتیں وہاں پیش آنے والے واقعے کے بعد ہوئی ہیں۔
احسن اقبال نے سابق ہم منصب پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کے طویل دھرنے کے موقع پر وزیرداخلہ کون تھا کیا وہ اس کا انتظام کر پائے۔
قبل ازیں سابق وزیر داخلہ اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما چوہدری نثار علی خان کے ترجمان نے میڈیا کے بعض حلقوں اور خصوصاً سوشل میڈیا پر چوہدری نثار علی خان کے گھر پر مظاہرین کے حملے اور انکو بکتربند گاڑی میں محفوظ مقام تک منتقل کیے جانے کی خبروں کی تردید کردی تھی۔
انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا تھا کہ گزشتہ ایک ہفتے سے آمدورفت میں درپیش مسائل کے باعث چوہدری نثار علی خان اسلام آباد میں ہی قیام پذیر ہیں لہٰذا ان کو بکتر بند گاڑی میں لے جائے جانے کی خبر میں کوئی صداقت نہیں۔
ترجمان نے کہا کہ گزشتہ روز بعض شرپسند عناصر کی جانب سے ان کے گھر پر دھاوا بولنے کی کوشش کی گئی جس سے مرکزی دروازے اور گھر کی دیوار کو نقصان پہنچا تاہم ان کے گھر پر سیکیورٹی پر مامور جوانوں نے فرض شناسی اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے شرپسندوں کی اس کوشش کو ناکام بنا دیا تھا۔
فیض آباد مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن
واضح رہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعتوں کا دھرنا گذشتہ 7 نومبر سے جاری تھا، دھرنا ختم کروانے کے عدالتی حکم پر جب انتظامیہ کی جانب سے مظاہرین کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا گیا، تو مشتعل افراد نے ملک کے دیگر شہروں میں بھی مظاہرے شروع کر دیئے۔
فیض آباد میں 7 گھنٹے طویل آپریشن کے بعد اسے معطل کر دیا جبکہ سیکڑوں مظاہرین کو گرفتار بھی کیا گیا، لیکن ملک کے دیگر شہروں میں بھی صورتحال کشیدہ ہوگئی اور کئی شہروں میں معطل ہوگئی۔