فیض آباد آپریشن: تجزیہ نگار کیا کہتے ہیں؟

اٹھارہ روز سے جاری دھرنا بالآخر پرامن طریقے سے ختم ہونے کے بجائے آپریشن کے ذریعے ختم ہوا۔

اسلام آباد میں فیض آباد انٹر چینج پر 7 نومبر سے دھرنے پر بیٹھے مذہبی جماعتوں کے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے سیکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے آج 25 نومبر کو آپریشن کا آغاز کردیا گیا۔

خیال رہے کہ دھرنے کے شرکاء کو صبح 7 بجے تک دھرنا ختم کرنے کی حتمی ڈیڈ لائن دی گئی تھی تاہم ڈیڈ لائن کے ختم ہونے کے بعد 8 ہزار سے زائد سیکیورٹی اہلکاروں نے دھرنے کے شرکاء کو چاروں اطراف سے گھیر کر آپریشن کا آغاز کرتے ہوئے آنسو گیس کے شیل فائر کیے۔

اس حوالے سے یہاں مختلف تجزیہ نگاروں کے نکتہ ہائے نظر پیش کیے جا رہے ہیں۔

مجاہد بریلوی، اینکر پرسن، ڈان نیوز

اس پورے معاملے پر سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے کردار کے ساتھ ساتھ میڈیا کا کردار بھی بہت اہم ہے جس میں چند ہزار افراد کو لاکھوں افراد کا مجمع بتا کر انتظامیہ پر دباؤ بڑھایا جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس آپریشن میں تاخیر سے یہ ہوا کہ لوگوں کو ہونے والی پریشانی کی وجہ سے عوام کی اس دھرنے کے لیے کوئی ہمدردی باقی نہیں رہی تھی۔ اس طرح کے دھرنوں سے ان لوگوں کو بھی نقصان ہوتا ہے جو اپنے جائز مطالبات کے لیے احتجاج پر نکلتے ہیں۔ جمہوری دور میں احتجاج ہر کسی کا حق ہے۔ مگر اس سے ٹریفک یا عام لوگ متاثر نہیں ہونے چاہیئں۔

افتخار شیرازی، بیورو چیف ڈان نیوز، اسلام آباد

قانون سازی کے دوران جب یہ محسوس کیا گیا کہ ختم نبوت کی شق سے چھیڑ چھاڑ کی جا رہی ہے تو فوراً ایک ترمیم کے ذریعے شق کو اسی حالت میں بحال کر دیا گیا۔ حکومت نے بڑے ہی تحمل کا مظاہرہ کیا اور بڑے اچھے طریقے سے نمٹنے کی بھی کوشش کی۔ دھرنے پر بیٹھے حضرات کو چاہیے تھا کہ وہ دھرنا ختم کرتے کیونکہ ان کے جائز مطالبات ایک حد تک مان لیے گئے تھے، انہیں اس طرح شہری زندگی کو متاثر نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ریاست کو قانون کی عملداری قائم رکھنی چاہیے، ورنہ ہمیشہ کوئی نہ کوئی گروہ اسی طرح عوام کو یرغمال بناتا رہے گا۔ پیمرا کو چاہیے کہ اس پورے معاملے پر غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کرنے والے چینلز سے بھی جواب طلب کرنا چاہیے کیوں کہ یہ ایک حساس معاملہ تھا۔