لکھاری پاکستان انسٹیٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے صدر ہیں۔
قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کی بڑی تعداد کا حاضری کے حوالے سے بدترین ریکارڈ پاکستان میں تقریباً ایک روایت ہے، اور اسی طرح کورم (کم سے کم 25 فیصد اراکین کی موجودگی) پورا نہ ہونے کی وجہ سے پارلیمانی کارروائیوں میں خلل پیدا ہونا بھی عام ہے۔
صورتحال مزید خراب حال ہی میں ہوئی ہے جب قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اراکین کی ایک بڑی تعداد ایک اہم قانون کی منظوری کے وقت غیر حاضر تھی۔
چوبیسویں آئینی ترمیم کے بل پر قومی اسمبلی میں 2 نومبر کو ووٹنگ ہونی تھی مگر کورم پورا نہ ہونے کی نشاندہی پر اجلاس ملتوی کردیا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ بل تب بھی منظور نہیں ہوتا کیوں کہ اسے دو تہائی اکثریت کی حمایت حاصل نہیں تھی، مگر یہ بہت ہی شرمناک تھا کہ مکمل ارکان کا ایک چوتھائی حصہ بھی بل پر بحث کرنے کے لیے اجلاس میں موجود نہیں تھا۔
یہ کوئی عام قانون سازی نہیں تھی؛ یہ ایک آئینی ترمیم تھی جس کا مقصد 2017 کی مردم شماری کی بنیاد پر نئی انتخابی حلقہ بندیاں کروانا تھا۔ الیکشن کمیشن نے یہ صاف الفاظ میں بتا دیا تھا کہ اگر پارلیمان نے 10 نومبر تک منظوری نہ دی تو وہ نئی حلقہ بندیاں عام انتخابات کی مقررہ تاریخ تک مکمل نہیں کرپائے گا، جس کے نتیجے میں ایک طرح کا آئینی بحران پیدا ہوسکتا ہے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے بار بار یاد دہانی کے بغیر بھی پارلیمنٹ کو جلد از جلد بحث کرکے وقت پر قانون سازی کرنی چاہیے تھی۔ مگر اتنی بڑی تعداد میں اراکین کی اسمبلی سے غیر حاضری، وہ بھی تب جب ایک انتہائی اہم نوعیت کی آئینی ترمیم پر بحث اور منظوری ہونی تھی، نہایت تشویشناک ہے۔ سینیٹ میں تو حالت اور بھی زیادہ خراب تھی جہاں 16 نومبر کو قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد چوبیسویں آئینی ترمیم کے بل پر بحث اور ووٹنگ ہونی تھی۔ 17 نومبر کو سینیٹ میں صرف 58 ارکان حاضر تھے جبکہ بل کی منظوری کے لیے کم از کم 69 کی موجودگی ضروری تھی، اور یوں یہ معاملہ اگلے کاروباری دن یعنی 20 نومبر تک مؤخر کر دیا گیا، جب صرف 59 ارکان حاضر ہوئے اور بل منظور نہیں ہو سکا۔
حاضری کی یہ بدترین صورتحال کسی خاص قانون سے منسلک نہیں ہے۔ اِس سے پہلے قومی اسمبلی اسی سال ستمبر میں پانچ لگاتار دنوں تک کورم پورا نہ کر پانے پر شرمندگی اٹھا چکی ہے۔ اکتوبر-نومبر 2017 میں سینیٹ کے اجلاس کے ابتداء میں صرف 13 یعنی 12 فیصد ارکان تھے جبکہ اختتام میں یہی تعداد 15 یعنی 14 فیصد ہوگئی تھی۔
دنیا کے کئی ممالک میں پارلیمانی اجلاس کے لیے کورم کی شرط نہیں ہوتی۔ مثلاً برطانیہ میں کورم کی شرط نہیں ہے، اور کبھی کبھی پارلیمانی کارروائی کم حاضری کے باوجود بھی چلتی رہتی ہے۔ مگر پاکستانی اور برطانوی پارلیمانی طرزِ عمل میں ارکان کی حاضری سے متعلق واضح فرق موجود ہے۔
برطانوی پارلیمنٹ میں ارکان پارلیمانی اجلاس کے دوران ہی اپنی پارلیمانی کمیٹیوں کے اجلاس میں شریک ہوتے ہیں۔ اِس لیے اس بات کا امکان ہیں کہ اگر ارکان پارلیمانی اجلاس میں موجود نہ ہوں، تب بھی عمارت کے اندر کسی نہ کسی کمیٹی کے اجلاس میں ضرور موجود ہوں گے۔ جیسے ہی ووٹنگ کا وقت ہوتا ہے تو گھنٹیاں بجنے لگتی ہیں اور تمام کمیٹیوں کے کمروں میں سی سی ٹی وی اسکرینز پر ووٹنگ کا ٹائم نظر آنے لگتا ہے، اور تمام اراکینِ پارلیمنٹ ووٹنگ میں شرکت کے لیے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔
پاکستان میں عام طور پر پارلیمانی کمیٹیوں کے اجلاس مرکزی اجلاس کے دوران کے اوقات میں نہیں رکھے جاتے۔ برطانوی سیاسی جماعتوں میں پارٹی کے طاقتور افراد کی جانب سے نافذ کردہ ڈسپلن بھی کافی مؤثر ہوتا ہے۔ شاید ہی کبھی ایسا ہوتا ہو کہ جب پارلیمنٹ کا اجلاس جاری ہو تو کوئی برطانوی رکنِ پارلیمنٹ کہیں اور مصروف ہو۔
دنیا کی دیگر قدیم پارلیمنٹس کی طرح برطانوی پارلیمنٹ کا بھی پورے سال کے لیے ایک پارلیمانی کیلنڈر ہوتا ہے۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ اس کیلنڈر پر عمل نہ ہو۔ برطانوی اراکینِ پارلیمنٹ چھٹیوں کے دوران اپنے بیرونِ ملک دوروں اور خاندانی مصروفیات کے لیے وقت مختص کرسکتے ہیں۔ پاکستانی اسمبلیوں نے بھی سالانہ پارلیمانی کیلنڈر بنانا شروع کیا ہے مگر اس پر عملدرآمد کوئی اتنا سخت گیر نہیں ہے۔
ہماری سیاسی قیادت کو محتاط طریقے سے ایک پارلیمانی کیلنڈر ترتیب دینا چاہیے جس میں واضح ہو کہ اراکینِ پارلیمنٹ دیگر مصروفیات کے لیے کتنا وقت نکال سکتے ہیں، جبکہ حاضری کو بہتر بنانے کے لیے پارٹی سطح پر بھی سختی کی ضرورت ہے۔
جب حاضری کی بات آئے تو سیاسی قیادت کو اپنے پارٹی ارکان کے لیے ایک مثبت مثال قائم کرنی ہوگی۔ بدقسمتی سے ہمارے سابق وزیرِ اعظم اور قومی اسمبلی میں قائدِ ایوان نواز شریف نے بہت کم اجلاس میں شرکت کی۔ انہوں نے قومی اسمبلی کے ابتدائی 3 سالوں کے دوران کچھ 13 فیصد اجلاس میں شرکت کی۔ حاضری کا تناسب سینیٹ میں اور بھی کم تھا۔
اسمبلیوں میں پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی حاضری کا ریکارڈ نسبتاً بہتر ہے۔ سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی کے تقریباً 90 فیصد اجلاس میں شرکت کی۔ موجودہ قائدِ حزبِ اختلاف خورشید شاہ نے بھی تقریباً 76 فیصد اجلاس میں شرکت کی ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان بھی شاید ہی کبھی پارلیمانی اجلاس میں شرکت کرتے ہیں، اور ان کی حاضری صرف 6 فیصد ہے۔ اگر پارٹی سربراہان باقاعدگی سے پارلیمانی اجلاس میں شرکت کیا کریں اور ٹی وی خطاب اور کثیر الجماعتی کانفرنسیں کرنے کے بجائے پارلیمانی پلیٹ فارمز کو اہم پالیسی اعلانات کرنے کے لیے استعمال کریں تو امکان ہے کہ دیگر اراکینِ اسمبلی بھی ملکی اسمبلیوں کے اجلاس کو اہمیت دینے لگیں گے۔
اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ ووٹرز کو اپنے اراکینِ پارلیمنٹ سے ان کی حاضری کے متعلق سوال کرنا چاہیے اور ان تک یہ بات پہنچانی چاہیے کہ پارلیمانی اجلاس میں شرکت کی اہمیت اگر خاندانی شادیوں اور جنازوں میں جانے سے زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہے۔
ہمارے اراکینِ پارلیمنٹ کہیں زیادہ محنتی ہیں اور اپنے لوگوں کے درمیان دوسرے ممالک کے اراکینِ پارلیمنٹ کے مقابلے میں کہیں زیادہ وقت گزارتے ہیں۔ ہم ووٹروں کو صرف یہ کرنا ہے کہ ہم ان کی پارلیمنٹ میں موجودگی کو بھی اتنا ہی ضروری سمجھیں۔
انگلش میں پڑھیں۔
یہ مضمون ڈان اخبار میں 24 نومبر 2017 کو شائع ہوا۔