پاکستان

قومی گرڈ کو رواں ماہ دوسری مرتبہ بحران کا سامنا

بحران ایسے وقت میں سامنے آیاجب فرنس آئل سے چلنے والے پاور پلانٹس کےپاس فوری بجلی پیداکرنے کیلئے ایندھن موجود نہیں۔

اسلام آباد: گیس کی سپلائی میں کمی اور پاور پلانٹس کی جانب سے 3 ہزار میگاواٹ بجلی کی پیداوار بند ہونے سے قومی گرڈ کو رواں ماہ دوسری مرتبہ بحران کا سامنا کرنا پڑا۔

یہ بحران ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب فرنس آئل سے چلنے والے پاور پلانٹس کے پاس فوری طور پر بجلی پیدا کرنے کے لیے ایندھن موجود نہیں ہے۔

واضح رہے کہ 27 اکتوبر کو وزیر اعظم کی جانب سے حکام کو ہدایت کی گئی تھی کہ درآمد شدہ مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کی کھپت بڑھائی جائے۔

ایک سینیئر اہلکار نے ڈان کو بتایا کہ توانائی کمپنیوں کو گیس کی فراہمی کم کرنے کے لیے 12 گھنٹوں سے کم وقت کا نوٹس دیا گیا تھا جبکہ ان کی جانب سے ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے کوششیں کی جارہی تھیں۔

مزیر پڑھیں: بجلی کا بڑا بریک ڈاؤن، پاور پلانٹس کی بحالی کا کام جاری

انہوں نے کہا کہ یہ واقعی ایک مشکل کام ہے کہ 12 یا 13 گھنٹوں میں ایندھن کی سپلائی بڑھائی جائے جبکہ اس سے بھی زیادہ مشکل کام ٹرانمیشن لائن اور گرڈ میں بجلی کی بلاتعطل فراہمی کو برقرار رکھنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بالوکی، بھکی، حویلی بہادر شاہ، نندی پور، فوجی کبیر والا سمیت قدرتی گیس سے چلنے والے تمام بڑے پلانٹ اور نادرن پاور کمپنی کے ماتحت پلانٹس جمعہ 24 نومبر سے سسٹم سے باہر نکل جائیں گے جن کا 27 نومبر سے پہلے سسٹم میں واپس آنے کا امکان نہیں۔

رسد اور طلب کے معاملے کو دیکھنے والے ایک اہلکار نے بتایا کہ یہ بد قسمتی ہوگی کہ نظام میں اضافی صلاحیت کے باوجود حکومتی غلط پالیسوں سے بجلی کے صارفین متاثر ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ کل پیداواری کی صلاحیت 25 ہزار میگا واٹ کے مقابلے میں اس وقت موجودہ طلب 10 سے 11 ہزار میگا واٹ ہے۔

سوئی نادرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) کی جانب سے گیس کی سپلائی کی معطلی کے بارے میں نادرن تھرمل پاور مظفر گڑھ، قائد اعظم تھرمل پاور لاہور، نیشنل پاور پارکس مینجمنٹ لاہور، روچ پاور لاہور اور فوجی کبیروالا راولپنڈی کو جاری نوٹس میں کہا گیا کہ تبدیل کردہ آر ایل این جی سپلائی میں کمی اور شہری بوجھ میں اضافے کے باعث نظام میں شدید کمی کا سامنا ہے اور سسٹم کو تشویشناک سطح پر چلایا جارہا ہے۔

اہلکار نےکہا کہ انتظامیہ آئل کمپنیز اور ریفائنریز تک پہنچنے کی کوشش کر رہی ہیں اور آئل ٹینکرز کو لانے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ سب حکومت کی خراب منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے کیونکہ مناسب سپلائی کا طریقہ کار نہ ہونے کی وجہ سے ایندھن غلط طریقے سے تبدیل کیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ‘قومی خزانے پر بوجھ بننے والے پاور پلانٹس کو بند کیا جائے’

اس سے قبل بھی 3 نومبر کو ایل این جی درآمدی ٹرمنل میں خرابی کے باعث بجلی کے نظام کو بڑے بریک ڈاؤن کا سامنا کرنا پڑا تھا، جس کی وجہ سے پنجاب اور بلوچستان کے اضلاع متاثر ہوئے تھے جبکہ فرنس آئل اور ڈیزل سے چلنے والے پاور پلانٹس کی بندش کے حکومتی فیصلے کے باعث 3 سے 7 نومبر کو بجلی کا شارٹ فال قومی سطح تک پہنچ گیا تھا۔

وزارت بجلی کی جانب سے اس بحران کی تین وجوہات، اسموگ، پاور پلانٹس کا بند ہونا اور گیس سپلائی کی کمی بتائی گئی تھی، انہوں نے کہا تھا کہ وہ نظام کو مستحکم کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے کیونکہ 4200 میگا واٹ بجلی کی کمی کا سامنا تھا۔


یہ خبر 24 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی