پاکستان

فرنس آئل کی درآمد پر پابندی کا امکان

یہ امکان ایک ایسے وقت میں ظاہر کیا گیا ہے جب بائیکو ریفائنری اپنا سب سے بڑا ریفائنری پلانٹ بند کرنے جارہی ہے۔

اسلام آباد: ذخیرہ اندوزی کے وجہ سے رسد میں درپیش چیلنجز کے باعث حکومت نے فرنس آئل کی درآمد پر پابندی عائد کرنے کا امکان ہے جبکہ ساتھ ہی حکومت نے ہدایات جاری کی ہیں کہ تیل سے چلنے والے پاور پلانٹس، ریفائنریز پر دباؤ کو کم کرنے کے لیے فرنس آئل کا کچھ حصہ اٹھالیں۔

یہ امکان ایک ایسے وقت میں ظاہر کیا گیا ہے جب ملک کی سب سے بڑی ریفائنری’ بائیکو ریفائنری‘ اپنا سب سے بڑا ایک لاکھ 20 ہزار ٹن گنجائش والا ریفائنری پلانٹ اور دیگر سب آپٹمم گنجائش رکھنے والی دیگر ریفائنریز بند ہونے جارہی ہے جبکہ ملک کے سب سے بڑے آئل سپلائر پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کے فرنس آئل کی ترسیل کرنے والے 6 جہاز کراچی آنے کے لیے تیار کھڑے ہیں۔

باخبر ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ سیکریٹری پیٹرولیم کے ساتھ ملک کی تمام ریفائنریز کے سربراہان اور پی ایس او کے سربراہ کی ملاقات کے دوران اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا تاہم محکمہ پیٹرولیم کے ایک سینئر اہلکار کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کی جانب سے اس معاملے پر فیصلے سے قبل سیکریٹری پیٹرولیم اور سیکریٹری توانائی کے درمیان اندرونی مشاورت کا ایک اور دور ہوگا۔

حکام نے بتایا کہ بائیکو نے محکمہ پیٹرولیم کو باضابطہ طور پر آگاہ کیا تھا کہ وہ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کی کسی مدد کے بغیر ہائی سلفر فرنس آئل (ایچ ایس ایف او) میں انتہائی اضافے کے باعث اپنا سب سے بڑا ریفائننگ کمپلیکس بند کر رہی ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستان کے پہلے ایل این جی پاور پلانٹ کا افتتاح

بائیکو کا کہنا تھا کہ ممکنہ ماحاصل کے مطابق وہ اپنا ایک چھوٹا 35 ہزار ٹن گنجائش والا یونٹ جاری رکھے گی۔

اس کے علاوہ کراچی سے تعلق رکھنے والی پاکستان ریفائنری لمیٹڈ اور نیشنل ریفائنری لمیٹد، ملتان سے تعلق رکھنے والی دوسری بڑی ریفائنری پارکو اور راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی اٹک ریفائنری 60 سے 70 فیصد تک کم ممکنہ صلاحیت کا استعمال جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اس حوالے سے مختلف ریفائنریز کے سربراہان نے حکومت کو خبر دار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت تنصیب میں فرنس آئل کی کھپت کو نہیں دیکھ رہی اور اسے جلد بازی کی بنیاد پر ایل این جی سے تبدیل کرنا چاہتی ہے جس سے ریفائنریز بند ہوں گی۔

ایسی صورتحال میں مقامی خام پیداوار کی کراچی سے برآمد ممکن نہیں ہوسکے گی اور یہ اٹک ریفائنری کے لیے خاص طور پر اہم ہے جو کوہاٹ سے خام تیل کو استعمال کرتے ہیں، ساتھ ہی یہ خیبرپختونخوا میں منسک گیس کی پیداوار کو بھی متاثر کرے گی۔

ریفائنریز کے ایک عیہدیدار نے سیکریٹری پیڑولیم کو بتایا کہ ’ہم تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں کیونکہ مقامی پیڑول، ڈیزل، کیروسین اور جیٹ فیول کی پیداوار کے لیے بھی درآمد کی ضرورت ہے جس میں غیر ملکی زرمبادلہ کا شامل ہونا بھی ضروری ہے‘۔

اس پس منظر میں یہ اتفاق ہوا کہ کچھ پاور پلانٹس سے گزارش کی جائے گی کہ وہ مقامی ریفائنریز سے فرنس آئل اٹھائیں تاکہ دیگر سامان کی پیداوار کے لیے جگہ بنائی جاسکے۔

یہ بھی پڑھیں: گردشی قرضے میں اضافہ، بجلی گھروں کو تیل کی ترسیل معطل

واضح رہے کہ فرنس آئل کی 70 فیصد طلب یا تقریباً 60 لاکھ ٹن ضرورت کو درآمد کیا جاتا ہے جبکہ بقیہ 30 فیصد مقامی ریفائنریز پیدا کرتی ہیں، جو یومیہ 10 سے 12 ہزار ٹن ہے۔

پی ایس او کی جانب سے بتایا گیا کہ پاور پلانٹس کے پاس اس وقت تیل کا ذخیرہ ہے جس کی وجہ سے تیل کی کھپت نہ ہونے کے برابر ہے، پی ایس او اور مقامی ریفائنریز سے ایچ ایس ایف او اور ایل ایس ایف او کو اٹھانے کے قابل نہیں اور اگر یہی صورتحال جاری رہی تو تمام ریفائنریز بند ہو جائیں گی۔

پی ایس او نے کہا کہ یہ بہت خطرناک صورتحال ہے اور یہ دیگر سامان کی دستیابی کو روک سکتی ہے۔

انہوں نے تجویز دی کہ جینکو کے پاس گنجائش موجود ہے جسے مکمل کرنے پر ایک کارگو جہاز کے لیے جگہ بنائی جاسکے گئی جبکہ ساتھ ہی پی ایس او مقامی ریفائنریز سے 50 فیصد جبکہ دیگر آئل مارکیٹنگ کمپنیز ایچ ایس ایف او کی بقیہ پیدوار کو اٹھائے۔

آئل کمپنیوں کی جانب سے حکومت کو بتایا گیا کہ یہ صورتحال پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن کے جے پی 1 اور پاکستان ایئر فورس کے جے پی 18 جہازوں پر بھی اثر انداز ہوگی کیونکہ اس طرح پیٹرول، ہائی اسپیڈ ڈیزل اور جیٹ فیول کی دستیابی پر بھی اثر پڑے گا۔

حکومت کی جانب سے پی ایس او کے لیے ناقص منصوبہ بندی کے باعث یہ صورتحال پیش آئی کیونکہ توانائی کے شعبے کی ہدایت پر پی ایس او نے 25 اکتوبر کو بیرون ملک سے 310 ارب روپے مالیت کے فرنس آئل کا آڈر دیا تھا اور اس کی منتقلی کے لیے 6 جہاز بک کرائے گئے تھے لیکن 27 اکتوبر کو وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی جانب سے تیل سے چلنے والے پاور پلانٹس کو بند کرنے کا حکم دیا گیا تاکہ ایل این جی کا استعمال بڑھایا جاسکے۔

مزید پڑھیں: ‘قومی خزانے پر بوجھ بننے والے پاور پلانٹس کو بند کیا جائے’

اس بارے میں وزارت کو بتایا گیا کہ اٹک ریفائنری لمیٹڈ بھی مکمل شٹ ڈاؤن کی جانب بڑھ رہی ہے جس کے بعد نہ صرف دیگر ریفائنریز کے سامان کی دستیابی پر اثر پڑے گا بلکہ جے پی ون کے لیے اسلام آباد ایئر پورٹ کی سپلائی مکمل رک جائے گی۔

اٹک ریفائنری لمیٹڈ نے حکومت کو بتایا ہے کہ اس کی اچانک بندش کی صورت میں حکومت کوئی متبادل انتظام کرے۔

مقامی ریفائنریز 30 فیصد ایچ ایس ایف او سپلائی کرنے کی پابند ہیں جو تقریباً 3 لاکھ ٹن ہر ماہ بنتا ہے جبکہ پی ایس او مجموعی طور پر ایچ ایس ایف اے/ ایل ایس ایف او کو 66 فیصد سپلائی کا پابند ہے۔

آئل انڈسٹری نے حال ہی میں حکومت کو لکھے گئے ایک خط میں تجویز دی ہے کہ وہ اس بحران کا فوری حل نکالے اور پاور ڈویژن تمام تھرمل پاور پلانٹس کو ہدایت کریں کہ وہ پی ایس او کے ساتھ ساتھ مقامی ریفائنری سے مصنوعات اٹھا کر سسٹم میں شامل کریں۔

اگر یہ صورتحال ختم نہیں ہوئی تو اس کے نتیجے میں ملک بھر میں بڑے پیمانے پرتمام مصنوعات کی کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔


یہ خبر 23 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی