’ہم جسے بندہ سمجھتے تھے وہ نظریہ نکلا‘
خبر ملی ہے کہ اپنے میاں نوازشریف جو آدمی آدمی سے لگتے تھے، دراصل نظریہ ہیں۔ ارے شک و شبہے کی کوئی گنجائش ہی نہیں اُنہوں نے خود اعتراف کیا ہے، پھر اُن کے ترجمان مصدق ملک نے تصدیق بھی کردی ہے کہ ہاں ہاں میاں صاحب بندے کے بھیس میں پورے کا پورا نظریہ ہیں، یعنی چوزے معاف کیجیے گا کوزے میں دریا بند ہے۔
مصدق ملک نے تو اب تصدیق کی ہے، ہمیں تو پہلے ہی شک تھا۔ ہم تو اپنے دوستوں سے کہتے تھے، دیکھو! یوں تو آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا، لیکن میاں صاحب تو سرے سے آدمی بھی نہیں دکھائی دیتے، نظریہ نظریہ سے لگتے ہیں۔ ہمارے اِس مشاہدے یا شبہے کی دلیل یہ ہوتی تھی کہ کوئی نظریہ ہی برسرِ اقتدار آکر یوں پھیل سکتا ہے جیسے میاں صاحب پھیل جاتے ہیں۔ اب جبکہ میاں صاحب کا نظریہ ہونا طے پاچکا ہے تو ہمیں اُمید ہے کہ آئندہ اِنہیں سیہون شریف اور عرس شریف کی طرح عقیدت و احترام سے نظریہ شریف کہا جائے گا۔
یہ سمجھ میں نہیں آرہا کہ نوازشریف نے اتنے عرصے بعد کیوں انکشاف کیا کہ وہ بندے نہیں نظریہ ہیں؟
پڑھیے: نئی نسل کے لیے نیا اقبال
ہمارے خیال میں اُنہیں خود بھی نہیں پتا تھا، گویا نوّاز بھی نوّاز سے آگاہ نہیں تھا۔ ہوا یہ ہوگا کہ اُن کے زیرک مصاحب 'کیوں نکالا' کی فلسفیانہ اُلجھن کو سُلجھانے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھے اور پھر سر توڑ کوشش کے بعد اچانک اُن پر یہ نکتہ نازل ہوا کہ میاں محمد نواز شریف دراصل ایک نظریہ ہیں، کیوں کہ اِس نظریاتی مملکت میں یہ سلوک نظریات کے ساتھ ہی ہوتا ہے، نظریہ تھے تو بچ گئے نظریاتی لوگ تو یہاں حرف غلط کی طرح مٹادیے جاتے ہیں۔
یہ انکشاف ہوتے ہی ایک وزیر ’میرے قائد میاں محمد نوازشریف‘ پکارتے بھاگے اور جاتی اُمرا جاکر ہی دم لیا۔ میاں صاحب نے خیریت پوچھی تو ہانپتے اور جوشِ جذبات سے کانپتے ہوئے بولے، ’میاں صاب! جو اے، میاں صاب! جو اے، معلوم ہوگیا کہ آپ کو کیوں نکالا، کیوں کہ یہ پتا چل گیا آپ کیا ہیں۔‘ میاں صاحب نے گھبرا کر پوچھا، ’کیا پتا چلا، کسی کو بتایا تو نہیں؟‘ لیکن جب وزیر نے اُنہیں آگاہ کیا کہ وہ کیا دریافت ہوئے ہیں تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ اِس انکشاف کو بُرائی کی طرح پھیلانا چاہیے۔
یہ تو بحث طلب معاملہ رہا ہی نہیں کہ نوازشریف ایک چلتا پھرتا، ہلتا جُلتا نظریہ ہیں، اب اِس نظریے کے خدوخال کا واضح ہونا بھی ضروری ہے اور نظریہ ساز کا نام بھی سامنے آنا لازمی۔
تاریخ صاف لفظوں میں بتاتی ہے کہ یہ نظریہ ’اتفاق‘ سے وجود میں آیا، اور کون نہیں جانتا کہ اتفاق میں برکت ہوتی ہے۔ وجود میں آنے کے بعد نظریہ خود نہیں جانتا تھا کہ وہ نظریہ ہے اِس لیے وہ عام نوجوانوں کی طرح کرکٹ میں اپنا وقت ضائع کرتا رہا (کافی عرصے بعد کرکٹر نے اُسے بھی اچھا خاصا ضائع کردیا)۔
پڑھیے: طاقت کے طوفان سے تیسری قوت تک!
پھر نظریے کو سیاست کی سوجھی اور وہ ریٹائرڈ ایئرمارشل اصغر خان کی تحریک استقلال میں سما گیا۔ نظریہ پھیل رہا تھا اور تحریک استقلال سُکڑ رہی تھی، لامحالہ وہ اِس جماعت سے باہر آگیا۔ ایک دن کیا ہوا کہ پنجاب کے گورنر، جنرل غلام جیلانی خان کی نظر نظریے پر پڑی، جہاں دیدہ آدمی تھے، آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل رہ چکے تھے، تاڑ گئے کہ آدمی کے بھیس میں یہ نظریہ چل پھر رہا ہے۔ انہوں نے جھٹ پٹ اپنی یہ دریافت شدہ نظریہ پاکستان کی ’جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں‘ کے محافظ جنرل ضیاءالحق کو پیش کی، جو اِس نظریے کے محافظ بن گئے۔ پھر تو ریٹائرڈ کو چھوڑ کر حاضر سروس کے سائے میں آنے والا یہ نظریہ ضیاءالحق کی ضیاء میں ایسا چمکا کہ اِس کی چمک سیاست سے عدالت اور صحافت تک ہر جگہ چم چم چمکتی رہی۔
دنیا میں نہ جانے کتنے نظریے مٹ گئے، اِس خطرے کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے 'نظریے' نے ہمیشہ کوشش کی کہ وہ مٹنے سے محفوظ رہے تاکہ خلقِ خدا کے کام آوے۔ صرف عوام الناس کی خاطر مجبور نظریہ اپنا ستیاناس ہونے کے بعد سمجھوتا کرکے جدہ چلا گیا، اور وہاں عرصے تک ایک خاموش نظریہ بنا رہا۔ نظریے نے نہ صرف خود نقل مکانی کی بلکہ اپنے اثاثے بھی بیرون ملک منتقل کردیے، بھئی ظاہر ہے ’عصا نہ ہو تو ہے کارِ کلیمی بے بنیاد۔‘ مال و دولت کے بغیر اکیلا نظریہ کیا بھاڑ جھونکتا؟ پھر نظریے نے سوچا کہ میں تو خود قوم کا سب سے بڑا اثاثہ ہوں، جب میں ملک میں نہیں تو یہ چھوٹے موٹے اثاثے باہر بھیجنے سے کیا فرق پڑتا ہے!
پڑھیے: تنخواہ دار منصور اور سقراط
اب جانتے ہیں کہ یہ نظریہ ہے کیا؟ ویسے تو میاں صاحب نے یہ کہہ کر کہ ’یہ نظریہ ملک میں انقلابی تبدیلی لے کر آئے گا‘ بتا دیا کہ وہ ایک انقلابی نظریہ ہیں۔ یہ جانتے ہی ہمیں وہ لینن، ماؤ، فیڈل کاسترو اور چے گویرا لگنے لگے ہیں، جو پاکستان میں بالشویک انقلاب سے ملتا جلتا ’پا شریف‘ انقلاب لائیں گے اور سُرخ سویرا رائیونڈ کے سبز باغ سے طلوع ہوگا۔
یہ انقلابی نظریہ بہت سے نظریات سے مل کر بنا ہے، یعنی اِسے آپ نظریاتی مکس چاٹ کہہ سکتے ہیں۔ اِس انقلابی نظریے کے اراکین میں سب سے اہم ہے نظریہ ضرورت، جس کی رُو سے وقت پڑنے پر ضیاء سے زرداری تک جس کی بھی ضرورت پڑے اُسے ضرور کام میں لایا جائے۔
یہ بہت ہی اچھی بات ہے کہ میاں صاحب نے خود کو پہچان لیا اور جان لیا کہ وہ نظریہ ہیں، دیرآید درست آید، مگر غلط وقت پر آید۔ ہمیں خدشہ ہے کہ کہیں شہباز شریف نوازشریف سے کہنے لگیں، پاجی، کیوں کہ آپ نظریہ ہیں اور نظریات کتابوں میں پائے جاتے ہیں، اِس لیے کتابوں میں ملیں۔ نظریہ کتابوں میں پڑا سوتا رہتا ہے، چنانچہ آپ بھی صفحات پر رقم ہوجائیں۔ میں اور میرے ساتھی آپ پر عمل کریں گے، آپ کو فروغ دیں گے اور موقع ملتے ہی آپ کو نافذ کردیں گے۔ اِس کے ساتھ ہی نوازشریف کی سیاست کا باب بند ہوجائے اور وہ بحیثیت نظریہ خاموشی سے کتابوں میں چُھپے اپنا پھیلنا دیکھتے رہیں۔
یہ طنزیہ بلاگ ہے
عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزاح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں فکاہیہ مضامین کا مجموعہ ’کہے بغیر‘، شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘ اور کراچی کے حوالے سے ناول ’سرسید، سینتالیس، سیکٹرانچارج‘ شامل ہیں۔ آپ اس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔