پاکستان

نااہل شخص کی پارٹی سربراہی کے خلاف بل اکثریت رائے سے مسترد

پی پی پی رہنما نوید قمر نے قومی اسمبلی میں بل پیش کیا جس کی وزیرقانون زاہد حامد نے مخالفت کی۔

قومی اسمبلی میں نااہل شخص کو کسی بھی سیاسی جماعت کی سربراہی سے روکنے کے لیے پیش کردہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بل کو حکمران اتحاد نے اکثریتی بنیاد پر مسترد کر دیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر نے قومی اسمبلی میں بل پیش کیا جس کا متن تھا کہ نااہل شخص سیاسی جماعت کا سربراہ نہیں بن سکتا۔

انھوں نے کہا کہ اگر یہ بل آج یہاں سے مسترد ہوتا ہے تو اس کے دوسرے مراحل ہیں وہاں پر بھی حکومت کو اپنی عددی برتری ثابت کرنا ہوگی۔

وزیرقانون زاہد حامد نے بل کی مخالفت کی بعد ازاں اسپیکر ایاز صادق نے بل پڑھ کر سنایا جس کے بعد مسترد کیا گیا تاہم نوید قمر نے کہا کہ ڈویژن ہے جس کے بعد رائے شماری کی گئی۔

اسپیکر ایاز صادق نے گنتی کا حکم دیا جس کے بعد بل کی مخالفت اور حمایت کرنے والے اراکین کو کھڑے ہو کر گنتی کی گئی۔

رائے شماری کے مطابق 98 ووٹ بل کے حق میں آئے اور 163 اراکین نے اس بل کی مخالفت کردی جبکہ سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن میر ظفراللہ جمالی نے بل کی مخالفت نہیں کی۔

مسلم لیگ (ن) کے ظفراللہ جمالی نے حمایت میں پی پی پی کے ساتھ کھڑے ہوئے جبکہ مخالفت کے لیے مسلم لیگ (ن) اور اس کے اتحادی اراکین کھڑے ہوئے تو اپنی سیٹ پر براجمان ہوئے۔

مزید پڑھیں:اپوزیشن کا بل روکنے کیلئے حکومت متحرک

تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے اپنے خطاب میں حکومتی اراکین پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی جماعت گزشتہ 30 برسوں سے حکومت میں ہے کیا آج کوئی شخص سربراہی کے اہل نہیں۔

انھوں نے کہا کہ وزیرقانون کوبل کی مخالفت کرنےکاحق ہے لیکن متحدہ اپوزیشن نے بل میں ترمیم پیش کی ہے جس کی منظوری سینیٹ نے دی ہے۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اس بل کے پیچھے ایک منطق ہے جبکہ جوشخص صادق اورامین نہیں وہ رکن پارلیمنٹ بھی نہیں بن سکتا۔

یہ بھی پڑھیں:عمران خان نے الیکشن ریفارمز ایکٹ 2017 سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا

وزیر قانون زاہد حامد نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس قانون کو ذوالفقار بھٹو نے 1975 متعارف کرایا تھا لیکن پرویز مشرف نے بینظیر بھٹو اور نواز شریف کو پارٹی کی سربراہی سے دور رکھنے کے لیے اس قانون کو ختم کردیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 17 نومبر 2014 میں اس قانون کے حوالے سے پارلیمنٹ کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں اسی قانون کو پیش کیا گیا تھا اس وقت پاناما پیپرز نہیں آئے تھے جو ڈیڑھ سال بعد اپریل 2016 میں سامنے آئے تھے۔

وزیرقانون نے کہا کہ اپوزیشن کی جانب سے یہ کہنا صرف ایک شخص کے لیے بل لایا جارہا صحیح نہیں کیونکہ اس بل کے حوالے سے پہلے ہی اتفاق تھا۔

خیال رہے کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے ترمیمی بل کے پیش نظر وزرا سمیت حکومت اراکین اسمبلی نے بھرپور حصہ لیا جس پر اپوزیشن کی جانب سے تنقید کرتے ہوئے کہا گیا کہ اگر حکومت اراکین پارلیمنٹ کو اسی طرح رونق بخشتے تو آج اس بل کی نوبت نہیں آتی۔

وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ آئین میں تجاوزات کھڑی کی گئیں، یہ تجاوزات جبراً آئین کا حصہ بنائی گئی ہیں۔

خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کے سربراہوں اور 20 کروڑ عوام پر چند افراد کے فیصلوں کو مسلط نہیں ہونے دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ جمہوریت کی جنگ ہے جو آج مسلم لیگ (ن) لڑ رہی ہے جس کو اس سے قبل پاکستان پیپلزپارٹی پارٹی (پی پی پی) نے لڑی ہے۔

خیال رہے کہ 28 جولائی کو سپریم کورٹ کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیے جانے کے بعد وہ پارٹی کی سربراہی سے بھی نااہل ہوگئے تھے جس کے بعد حکمران جماعت اس بل پر ترمیم قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کروا دیا تھا۔

نواز شریف الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 203 کی منظوری کے بعد مسلم لیگ (ن) کے صدر بن گئے تھے اس بل میں اجازت دی گئی کہ نا اہل شخص بھی کسی سیاسی جماعت کا سربراہ بن سکتا ہے۔

یاد رہے کہ عمران خان کی جانب سے الیکشن ایکٹ 2017 کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔