پاکستان

سزاؤں میں کمی غیر قانونی انسانی اسمگلنگ میں اضافے کی وجہ قرار

80 فیصد ایجنٹس نے عدالتوں سے سزا ملنے سے قبل ہی متاثرہ خاندانوں کے ساتھ رابطہ کیا اور معاملات طے کرلیے، ایف آئی اے

گجرات: غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے کی خواہش نوجوانوں میں زور پکڑتی جارہی ہے جس کے باعث دیگر 6 علاقوں کے مقابلے میں ضلع گجرانولہ میں انسانی اسمگلنگ کا کاروبار عروج پر پہنچ گیا۔

فیڈرل انویسٹی گیشن (ایف آئی اے) کے مطابق علاقے میں گزشتہ چار برسوں کے دوران انسانی اسمگلنگ کیس میں کسی شخص کو سزا نہیں ملی۔

واضح رہے کہ ایف آئی اے انسانی اسمگنگ کی روک تھام کے لیے اقدامات کرتا ہے۔

ضلع گجرانوالہ کے مختلف علاقوں گجرات، منڈی بہاؤ الدین، سیالکوٹ، وزیرآباد میں انسانی اسمگلنگ کا کاروبار جاری ہے، غیر قانونی کاروبار میں ملوث افراد کی بڑی تعداد کو ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا جبکہ اُن کے بیرونِ ملک (ایران، ترکی) سمیت متعدد ممالک میں نیٹ ورک موجود ہیں۔

مزید پڑھیں: پی آئی اے عہدیدار انسانی اسمگلنگ کے الزام میں گرفتار

ذرائع کا کہنا ہے کہ غیر قانونی کاروبار کرنے والے 6 سے 7 درجن افراد کو گرفتار کرکے جیل بھیجا گیا اور انہوں نے مقدمات کا بھی سامنا کیا تاہم کچھ ہی عرصے بعد انہوں نے شکایت کنندہ (متاثرہ اہل خانہ) سے حیران کن سودے کیے اور ایف آئی اے کو عدالتی حکم کے مطابق معمولی جرمانہ ادا کیا۔

ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’80 فیصد ایجنٹس نے عدالتوں سے سزا ملنے سے قبل ہی متاثرہ خاندانوں کے ساتھ رابطہ کیا اور از خود معاملات طے کرلیے جس کی وجہ سے انہیں قانونی طور پر کوئی سزا نہیں دی جاسکی‘۔

ایف آئی اے کی خصوصی عدالت قائم کی گئی ہے جو اس بات کا تعین کرتی ہے کہ مقدمہ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کو بھیجا جائے یا نہیں؟

غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرنے کے سانحے کے بعد ایف آئی اے روایتی طور پر متحرک ہوکر مختلف اقدامات کرتی نظر آتی ہے۔

غیر قانونی طور پر سرحد پار کر کے بیرونِ ملک جانے والے اکثر افراد اس دوران اغوا کرنے کے بعد قتل کردیے جاتے ہیں جس کے بعد انسانی اسمگلنگ کا کام کرنے والے ایجنٹ اس کا ہرجانہ اہل خانہ کو ادا کردیتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: 'پاکستان میں انسانی سمگلنگ میں مسلسل اضافہ'

حال ہی میں پنجاب کے مختلف علاقوں گجرات، منڈی بہاؤالدین، سیالکٹ اور ضلع گجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے 20 نوجوانوں کی بلوچستان میں ہلاکت کے بعد ایف آئی اے نے ایک مرتبہ پھر انسانی اسمگلنگ کا کاروبار کرنے والے افراد کے خلاف کارروائی کی۔

سرکاری ذرائع کے مطابق ایک سال کے دوران غیر قانونی طور پر یورپ جانے والے 200 افراد کو سرحد عبور کرنے کے دوران قتل کیا گیا جن میں سے اکثر کی تعداد گوجرانوالہ سے تھی لیکن اس تمام تر صورتحال کے باوجود کسی بھی ایجنٹ کو کوئی سزا نہیں سنائی گئی اور نہ ہی کوئی قتل کا مقدمہ درج کیا گیا۔

ایف آئی اے نے ضلع گجرات اور منڈی بہاؤالدین میں انسانی اسمگلنگ کے روک تھام کے لیے ایک سال قبل گجرات پولیس اسٹیشن قائم کیا تاہم اُس کا تاحال کوئی فائدہ سامنے نہیں آیا۔

فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی گجرات کے سربراہ نے ڈان کو بتایا کہ ’ہماری ٹیم نے گزشتہ ایک سال کے دوران 276 مختلف مقدمات کی تحقیقات کیں اُن کی روشنی میں 135 ایجنٹس کو گرفتار کیا جن میں حوالہ اور ہنڈی کا غیر قانونی کاروبار کرنے والے افراد بھی شامل تھے، ان سب مقدمات کے 254 چالان عدالت میں پیش کیے گئے۔

اسے بھی پڑھیں: ایف آئی اے اہلکاروں پر انسانی اسمگلنگ کا الزام

اُن کا کہنا ہے کہ ’اب تک 125 ملزمان کو سزا سنائی جاچکی ہے تاہم اُن میں انسانی اسمگلنگ کا کاروبار کرنے والے کتنے افراد ہے اس کی صحیح تعداد کا کوئی علم نہیں۔ انہوں نے کہا کہ غیر قانونی کاروبار کرنے والے ملزمان کے قبضے سے 36 لاکھ 80 ہزار روپےبرآمد کیے گئے۔

ایف آئی اے ذرائع کے مطابق ’ضلع گوجرانوالہ میں قائم کی جانے والی خصوصی عدالت نے گزشتہ تین سال کے دوران 1600 افراد پر 5 کروڑ 67 لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کیے ہیں‘۔

گجرات سے تعلق رکھنے والے سینئر وکیل جو ایف آئی اے کے مقدمات کی پیروی کرتا ہے اُن کا کہنا تھا کہ ’انسانی اسمگلنگ روکنے کے لیے سخت قوانین اور کڑی سزاؤں کے عملدرآمد کی ضرورت ہے۔

بیرونِ ملک جانے کے خواہش مند

ذرائع کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران اچھے روزگار کی تلاش میں 30 ہزار سے زائد پاکستانیوں کو غیر قانونی طور پر ترکی اور ایران بھیجا گیا، اُن میں سے اکثر کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ کسی طرح یورپ تک پہنچ جائیں۔

ضلع گجرات اور جہلم ڈسٹرکٹ میں انسانی اسمگلنگ کا کاروبار 1960 اور 1970 کے اوائل سے جاری ہے جب اس علاقے میں عالم پور گوندل نامی معروف شخصیت موجود تھی، انہوں نے ہزاروں غریب نوجوانوں کو بیرونِ ملک اور یورپ تک بھیجنے میں مدد فراہم کی۔

اس وقت ایران ، ترکی اور دیگر فرانسیسی ممالک کا زمینی سفر کرنا مشکل نہیں کیونکہ مذکورہ ممالک نے پاکستان پر چھوٹی پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں تاہم ان ممالک تک سرحد عبور کر کے پہنچنا بہت خطرناک ہے۔


یہ خبر 20 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی