پاکستان

آڈیٹر جنرل کا 51 پبلک سیکٹر کمپنیوں کے مالی معاملات پر تحفظات کا اظہار

ان کمپنیوں میں کام کرنے والے سرکاری افسران نے اپنا آخری ادائیگی سرٹیفکیٹ حاصل نہیں کیا، آڈیٹر جنرل پاکستان

لاہور: آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) نے میاں شہباز شریف کی پنجاب حکومت کے تحت بنائی گئی 51 پبلک سیکٹر کمپنیوں کے مالی معاملات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے تجویز دی ہے کہ فوری طور پر اسپیشل ڈرائنگ الاؤنس (ایس ڈی ایز) کے ذریعے انہیں فنڈز فراہم کرنے سے روکا جائے۔

ان تحفظ کا اظہار انہوں نے رواں ماہ ہونے والے اعلیٰ سطح اجلاس میں کیا، سرکاری ذرائع نے گذشتہ روز بتایا اجلاس میں بتایا گیا کہ اس دوران حکومت نے پبلک سیکٹر کمپنیوں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے مختلف اقدامات کیے ہیں.

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اے جی پی نے اعتراض کیا کہ ان کمپنیوں میں کام کرنے والے سرکاری افسران نے اپنا آخری ادائیگی سرٹیفکیٹ ( ایل پی سی) نہیں لیا، جس کے نتیجے میں وہ دو تنخواہیں لے رہیں ہیں، ایک حکومت سے اور دوسری اس کمپنی سے جہاں وہ کام کر رہے ۔

مزید پڑھیں: دہری شہریت: سابق آڈیٹر جنرل کو ایک سال قید کی سزا

واضح رہے کہ آخری ادائیگی سرٹیفکیٹ کا سرکاری ادارے کی جانب سے دوسرے محکمے، نیم سرکاری محکمے یا خود مختار ادارے میں تبادلے کی صورت میں اے جی کے دفتر میں جمع کرایا جاتا ہے، جس کے بعد پچھلے محکمے سے تنخواہ روک دی جاتی ہے اور جہاں ان کی نئی تفویض ہوتی ہے اس ادارے کے اکاؤنٹ سے تنخواہ شروع ہوتی ہے۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ تمام انتظامی سیکریٹریز اور کمپنیوں کے سربراہان سے پوچھا جائے گا کہ وہ کسی بھی سرکاری ملازم کی دو تنخواہوں کے حوالے سے جانچ کریں اور رپورٹ پیش کریں۔

اے جی پی نے کہا کہ زیادہ تر کمپنیاں اپنے وائس اکاؤنٹ کی تفصیلات اے جی پی دفتر میں جمع نہیں کراتیں، انہوں نے کہا کہ ان کمپنیوں کو ایس ڈی ایز کی جانب سے معمول کے علاوہ بھی فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ایسے اکاؤنٹس کا اندرونی آڈٹ نہیں کیا جاتا۔

اس حوالے سے اسپیشل سیکریٹری فنانس نے واضح کیا کہ یہ فنڈ انتظامی سیکریٹریوں کی جانب سے کمپنیوں کے ایس ڈی اے میں جاری کیا جاتا ہے جہاں سے اسے کمپنیوں کے کمرشل بینک اکاؤنٹس میں منتقل کردیا جاتا ہے۔

اس بارے میں صوبائی وزیر خزانہ نے کہا کہ بہتر خدمات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے کمپنی کے طریقہ کار کو اپنایا گیا ہے، یہ حکومت کا استحقاق ہے کہ وہ خدمات کے طریقہ کار کا فیصلہ کرے۔

انہوں نے مشورہ دیا کہ محکمہ خزانہ اور اے جی پی آفس کو ساتھ بیٹھنا چاہیے اور ایس ڈی ایز کے معاملے پر مختلف رائے کو حل کرنا چاہیے لیکن اے جی پی کی جانب سے زور دیا گیا کہ حکومت کا استحقاق معیشت اور کارکردگی کے اصول کے مطابق ہونا چاہیے۔

چیف سیکریٹری نے کہا کہ تقریباً تمام کمپنیوں نے قابل اعتماد آڈٹ فرمز سے اپنا بیرونی آڈٹ مکمل کیا تاہم اندرونی آڈٹ کے لیے ان کے پاس میکینزم موجود نہیں، اور وہ اے جی پی کے آڈٹ نظام کے مقابلے میں کافی پیچھے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ 2016-2015 میں صرف 17 کمپنیوں نے اے جی پی آڈٹ حاصل کیے جبکہ 2017-2016 میں کوئی کمپنی آڈٹ حاصل نہیں کرسکی۔

مزید پڑھیں: آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی خالی نشست، 'آئینی خلاء' کا باعث

اس فرق کی اصل وجہ کچھ کمپنیوں کے درمیان غلط فہمی تھی، کچھ کمپنیاں کو ضرورت نہیں تھی کہ وہ اپنے اکاؤنٹس کا آڈٹ اے جی پی سے کرائیں جبکہ باقی کمپنیاں اے جی پی دفتر سے شیڈیل کے موصول ہونے کا انتظار کر رہی تھی۔

چیف سیکریٹری پنجاب حکومت کی درخواست پہنچاتے ہوئے اے جی پی سے درخواست کی کہ وہ آئندہ 2 سے 3 ماہ میں پبلک سیکٹر کمپنیز اور میگا پروجیکٹس کے لیے آڈٹ کرنے کا انتظام کرے۔

پنجاب حکومت کا نیب کی تحقیقات کا خیر مقدم

پنجاب حکومت نے قومی احتساب بیور ( نیب) کی جانب سے 56 پبلک سیکٹر کمپنیوں کے خلاف تحقیقات کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت ہر وہ دستاویز فراہم کرے گی جس کی بھی نیب کو ضرورت ہو۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پنجاب حکومت کے ترجمان ملک اسد خان نے کہا کہ کمپنیوں کے تمام معاملات شفاف اور تصدیق کے لیے کھلے ہونے کے باوجود صوبائی حکومت خود سے نیب کو ہر دستاویز فراہم کرے گی۔

یہ بھی پڑھیں: نیب کا 56 پبلک سیکٹر کمپنیوں کے خلاف تحقیقات کا فیصلہ

ڈان سے گفتگو میں ترجمان پنجاب حکومت کا کہنا تھا کہ یہ کمپنیاں پبلک پرائیوٹ شراکت داری کی بنیاد پر قائم ہوئی تھیں تاکہ بہتر اور موثر ترسیل کا عمل جاری رکھ سکیں، انہوں نے کہا کہ آج کے دور میں یہ ایک بہترین ماڈل جس کی دنیا پیروی کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر فنڈز میں بے ضابطگی اور غلطی پر کوئی سوال بھی ہے تو یہ بدعنوانی کے برابر نہیں ہے، ان کمپنیوں میں اندرونی اور بیرونی آڈٹرز ہیں جو آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے تحت ان کے آڈٹ کرتے ہیں۔

انہوں نے اس بات کو مسترد کیا کہ ان کمپنیوں میں حکومتی حکام بڑے عہدوں پر تعینات کیے ہیں، انہوں نے کہا کہ یہ غلط دعویٰ ہے صرف 56 کمپنیوں کے سربراہ حکومت سے قابلیت کی بنیاد پر چنے گئے، جنہوں نے مختلف مقامات پر مقابلہ کیا اور مختلف پروجیکٹ میں لاکھوں روپے بچائے۔