ہیر رانجھا: کیا حقیقت کیا فسانہ
پاک و ہند کی تاریخ لوک رومانوی داستانوں سے بھری ہوئی ہے، مگر اِن داستانوں میں ہیر رانجھا کی کہانی نے جو بامِ عروج حاصل کیا وہ کم ہی کسی رومانوی داستان کو نصیب ہوپایا ہے۔ چند دہائیاں پہلے یہ قصہ دیہاتوں میں لگنے والی شام کی محفلوں کا لازمی جز ہوا کرتا تھا۔
خوش الحان میراثی، شوقیہ گائیکی کے شوقین اور پیشہ ور قصہ گو دن بھر کے تھکے ہارے کسانوں اور محنت کش مزدوروں کو شام کی کچہریوں میں لہک لہک کر یہ داستان سناتے جو نظم میں بھی ہوتی اور نثر کی شکل میں بھی۔ وہ زمانے لد گئے جب ایسی محفلین سجا کرتی تھیں۔ جب سے دنیا گلوبل ولیج بنی دنیا کے گولے سے اِن خوبصورت روایات کا تو جیسے خاتمہ ہی ہوگیا ہے اور شام کی محفلیں اب قصہ پارینہ ہوچکیں۔
ہیر رانجھا کی رومانوی داستان کا مرکزی کردار ’رانجھا‘ دراصل کردار کا نام نہیں بلکہ رانجھا تو اِس کی قومیت تھی اور اِس کا نام تو میاں مراد بخش عرف میاں رانجھا تھا، کم از کم میں تو اِس بات سے ناواقف تھا، شاید بعض قاری بھی یہی سمجھتے ہوں۔ اِس بات کا ادراک پہلی بار میاں رانجھا کے آبائی گاؤں تخت ہزارہ جاتے ہوئے ہوا، جب سیال موڑ کے بعد یکے بعد دیگرے بدر رانجھا، مڈھ رانجھا کے چھوٹے چھوٹے قصبات سے گرزا۔