نقطہ نظر

شعیب منصور کی گرتی کارکردگی کی تازہ مثال 'ورنہ'

بہت سارے معیاری ڈرامے بنانے والے شعیب منصور اب تک فلم سازی میں وہ صلاحیتیں نہیں دکھا سکے جو فلم کو متاثر کن بناسکیں۔

کچھ عرصے سے پاکستانی سینما میں، سماجی موضوعات کو اہمیت ملنے لگی ہے، حال ہی میں نمائش کی جانے والی فلم ’ورنہ‘ اِسی رجحان کی ایک کڑی ہے۔

یہ فلم پاکستان کے معروف ہدایت کار شعیب منصور نے بنائی ہے، جس کا موضوع ’خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی‘ ہے۔

موضوع تو متنازعہ تھا ہی، مگر پاکستان کے وفاقی سنسر بورڈ کی طرف سے مختصر وقت کے لیے لگائی جانے والی پابندی کی وجہ سے، اِس کی نمائش بھی تنازعات کا شکار ہوئی، مگر بہرحال اب اِس فلم کو، مقررہ تاریخ پر پاکستان سمیت دنیا بھر میں نمائش کے لیے پیش کر دیا گیا ہے۔

کہانی

کہانی میں مجموعی طور پر دیا جانے والا پیغام، اِس فلم کا سب سے مضبوط رخ ہے۔ وہ خواتین، جنہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے، وہ خود یا اُن کے اہلِ خانہ بدنامی کے ڈر سے اِن واقعات کو درج نہیں کرواتے اور اِن واقعات میں ملوث سفاک چہروں کو بے نقاب نہیں کرتے۔ اِن واقعات پر خواتین کا کیا ردِعمل ہونا چاہیے؟ اور اُنہیں کس طرح قانونی راستہ اختیار کرنا چاہیے؟ اِس بات کو بہت وضاحت سے فلم کے پردے پر دکھایا گیا ہے۔

ایسے واقعات ہونے کے سدِباب کیا ہیں؟ اِن واقعات کے پیچھے کون سی منفی طاقتیں متحرک ہوتی ہیں؟ ایسے معاملات میں انصاف کا ترازو کتنا کام آتا ہے؟ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمے داری اور فرض شناسی کتنی کام کرتی ہے؟ اِن تمام پہلوؤں کو کہانی کے پسِ منظر اور پیش منظر میں کرداروں کے ساتھ جوڑ کر بیان کیا گیا ہے۔

فلم کے کہانی نویس شعیب منصور خود ہیں۔ کہانی بیان کرنے کا انداز تو پرانا ہے، مگر مکالموں میں عہدِ حاضر کے مسائل کی نشاندہی بہت اچھے طریقے سے کی گئی ہے۔ یہ کہا جاسکتا ہے، مضبوط مکالمہ نگاری کی وجہ سے کہانی میں ناظرین کی دلچسپی برقرار رہے گی۔ اِسی کے ساتھ کہانی میں شعوری طور پر توازن رکھا گیا ہے، جس طرح اگر سیاست دان کا بیٹا زانی ہے تو باپ کو نیک دل اور بے خبر دکھایا ہے، متاثرہ لڑکی کا سسر طاقت ور شخص ہے تو اُس کا باپ مظلوم نظر آتا ہے، دو سیاستدان ظالم ہیں تو ایک سیاست دان نیک دل بھی ہے۔

اِسی طرح سماج، مذہب اور معاشرتی قدروں پر بھی بات کرتے ہوئے اِس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ توازن برقرار ہے۔ جس طرح کہ ایک منظر میں ماں اپنی بیٹی سے کہتی ہے کہ ’ظالموں کو معاف کر دو، خدا معاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘ جس پر بیٹی جواب دیتی ہے کہ ’تو پھر خدا نے دوزخ کس لیے بنائی ہے؟‘ کہانی نویس کے اِس رویے نے کہانی کو کہیں کہیں کمزور کردیا، مگر مکالموں کی وجہ سے دلچسپی قائم رہی، لیکن اِس فلم کااختتام جس طرح کیا گیا، وہ انتہائی غیر حقیقی ہے، جس کی گنجائش فکشن میں تو ہوسکتی ہے مگر اصل زندگی میں نہیں۔

یہ فلم پاکستان کے معروف ہدایت کار شعیب منصور نے بنائی ہے، جس کا موضوع ’خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی‘ ہے۔

فلم سازی، ہدایت کاری، موسیقی

اِن تینوں شعبوں میں شعیب منصور تینوں منصب بھی سنبھالے ہوئے ہیں۔ فلم سازی کے لحاظ سے یہ ایک کم بجٹ کی فلم ہے، جس میں بہت زیادہ خرچہ نہیں کیا گیا۔ ایک خوبصورت حویلی، دو گھر، ایک پارک، ایک عدالت، ایک مارکیٹ اور اِسی طرح کی چند عام سی لوکیشنز سے کام چلا لیا گیا ہے، حتیٰ کہ عدالت کا منظر دیکھتے وقت بڑی حیرت ہوئی کیونکہ فلم ’خدا کے لیے‘ کی عدالت کے برعکس اِس فلم میں ایک تنگ سے کمرے کو مرکزی عدالت کے طور پر دکھایا گیا ہے، کہیں ڈمی چینل تو اصل اینکر بھی دکھائی گئی ہے۔ بجٹ کی تنگی پوری فلم پر حاوی ہے، سوائے اُن چند مناظر کے، جن میں سیاست دان اور اُس کے بیٹے کے کردار عکس بند کیے گئے ہیں۔

فلم کی ہدایت کاری تکنیکی لحاظ سے تو پھر بھی ٹھیک ہے، مگر شعیب منصور، جن کے کریڈٹ پر بہت سارے معیاری ڈرامے ہیں، وہ فلم سازی میں ابھی تک اُس طرح اپنی صلاحیتوں کے جوہر نہیں دکھا پائے،جو فلم کو متاثر کن بناسکیں۔ اُنہیں سوچنا چاہیے، عہدِ جدید میں فلم بین اور سینما کا مزاج بدل رہا ہے، اِس کو ذہن میں رکھ کر فلمیں بنائیں، این جی او ایجنڈا زیادہ ساتھ نہیں دے گا، نہ ہی ہدایت کاری کا پرانا طریقہ واردت۔

فلم ورنہ میں ہارون شاہد اور ماہرہ خان مرکزی کردار ادا کررہے ہیں۔

شعیب منصور کے معاملے میں حیرت انگیز طور پر گنتی الٹی چل رہی ہے۔ اُن کی پہلی فلم ’خدا کے لیے‘ تھی، جس کی موسیقی اور اداکاری عمدہ تھی، دوسری فلم بول میں موسیقی فارغ ہوئی، صرف اداکاری رہ گئی، اب اِس فلم میں نہ موسیقی ہے نہ اداکاری۔ فلم کے موسیقار شعیب منصور اور شاہد ہارون ہیں۔ ہارون شاہد نے فلم کا مرکزی کردار بھی نبھایا ہے۔

فلم میں 6 گیت ہیں، اگرچہ کہانی کے اعتبار سے اتنے گیتوں کی گنجائش شاید نہیں تھی۔ پھر سب گیتوں کی دھنیں سننے میں ایک جیسی محسوس ہورہی ہیں، سوائے ایک گیت ’پاوردی گیم‘ کے، مگر یہ گیت بھی اپنے انداز میں پرانا ہے۔ کئی برسوں سے اِس طرزِ موسیقی پر گیت پاکستان میں بن کر زبان زدِ عام ہوچکے۔ جدید میوزک کی اِس پرانی دھن سمیت تمام گیت بھی شعیب منصور نے لکھے ہیں، لہٰذا جب پوری فلم پر آپ ہی تن تنہا اپنی صلاحیتوں کے جوہر آزمائیں گے تو پھر یکسانیت عود آنا فطری بات ہوگی، جو اِس فلم میں ہر جگہ محسوس ہوئی۔

اداکاری

ماہرہ خان کی اداکاری کا ایک مخصوص انداز ہے، شاید اِس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کچھ عرصے سے ڈرامے کی اسکرین پر چھائی رہی ہیں، جہاں وہ ایک مخصوص انداز (مظلوم اور بے بس عورت) کی اداکاری کرتی ہیں، لہذا اِس اعتبار سے اُن کا انتخاب اِس کردار کے لیے درست ہے۔ مگر اَس بار ’ضرار خان‘ نے اپنی متاثر کن اداکاری سے بہت حیران کیا۔ دوسری طرف مرکزی کردار میں ہارون شاہد اور دیگر ساتھی اداکاروں نے بھی اپنے مختصر کرداروں میں اپنے تئیں اچھی اداکاری کا مظاہرہ کیا ہے، مگر مجموعی حیثیت میں جتنا حساس اور دردناک موضوع تھا، اُس کے مطابق اداکار اپنا تاثر جمانے میں ناکام رہے۔

نتیجہ

شعیب منصور کی فلم ہونے کی وجہ سے فلمی شائقین کی نظریں پہلے ہی اِس فلم پر تھیں، اور پاکستان میں نمائش پر پابندی کی وجہ سے یہ فلم، فلم بینوں کی توجہ حاصل کرنے میں مزید کامیاب ہوچکی ہے، لہذا اب یہ ہوسکتا ہے کہ ابتدائی دنوں میں فلم باکس آفس پر اچھا رسپانس دے، مگر زیادہ دنوں تک یہ فلم اپنا جادو نہیں جگا سکے گی، کیونکہ اِس فلم کی نمائش سے پہلے اور اِس کے بعد ،اِس سے بہت بہتر فلمیں بن رہی ہیں، اِس لیے یہ فلم اپنے لیے باکس آفس پر زیادہ بہتر نتائج حاصل نہیں کرسکے گی۔

خرم سہیل

بلاگر صحافی، محقق، فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ان سے ان کے ای میل ایڈریس khurram.sohail99@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔