پاکستان

ہراساں کرنے کا الزام: ’پی ٹی وی‘ کے ڈائریکٹر کرنٹ افیئرز برطرف

آغا مسعود شورش کے خلاف جنسی طور پر ہراساں کرنے اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی پانچ تحقیقات جاری تھیں۔
|

پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کے معطل ڈائریکٹر کرنٹ افیئرز آغا مسعود شورش کو جنسی ہراساں کرنے کے الزامات اور اختیارات کے ناجائز استعمال پر ملازمت سے برخاست کر دیا گیا۔

آغا مسعود شورش کے خلاف جنسی طور پر ہراساں کرنے اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی پانچ تحقیقات جاری تھیں۔

پی ٹی وی کے 14 پروڈیوسرز نے ان کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی درخواست دائر کی جبکہ یہ معاملہ قومی اسمبلی میں بھی اٹھایا گیا۔

آغا مسعود شورش، جنہیں غفلت برتنے پر تین ماہ قبل معطل کیا گیا تھا، اپنی معطلی کے عرصے کے دروان تنخواہ اور دیگر مراعات حاصل کرتے رہے۔

وہ سرکاری طور پر تقریباً ایک دہائی قبل ہی ریٹائر بھی ہوچکے تھے۔

انہوں نے عدالت میں اپنے دفاع کے لیے پی ٹی وی کے قانونی ذرائع بھی استعمال کیے، حالانہ ادارہ کیس میں فریق نہیں تھا۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ وزارت اطلاعات نے، وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت اجلاس میں شرکا نے ملازمت کی عمر مکمل کر لینے اور اداروں کی بدنامی کا باعث بننے والے مستقل و کنٹریکٹ ملازمین سے قانون و ضابطہ کے مطابق نمٹنے کے فیصلے کے بعد، آغا مسعود شورش کی برطرفی کا نوٹی فکیشن بھی جاری کردیا۔

مزید پڑھیں: جنسی ہراساں کرنےکےبعد معافی مانگی گئی،پی ٹی وی اینکر

آغا مسعود شورش کے خلاف مرکزی شکایت کنندہ اور پی ٹی وی کی سابق ملازمہ تنزیلہ مظہر نے فیصلے کے بعد ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’بالآخر، ہراساں کرنے، کرپشن اور اقربا پروری کا تاریک باب بند ہوگیا۔‘

انہوں نے حمایت پر پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنماؤں سعید غنی اور شازیہ مری اور متعدد ٹی وی اینکرز کا شکریہ ادا کیا۔

وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ غیر جانبدار کمیٹی معاملے کی تحقیقات کرے گی۔

تاہم تنزیلہ مظہر نے پی ٹی وی سے استعفیٰ دے دیا تھا اور ان کا کہنا تھا کہ وہ ادارے کے لیے فرائض انجام دیئے بغیر تنخواہ نہیں لے سکتیں۔

انہوں نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ ’میں نے اس لیے استعفیٰ دیا کہ جس شخص کے خلاف معاملہ ہے اسے بحال کردیا گیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اگرچہ ہمارے کانٹریکٹس کی تجدید ہوگئی تھی، لیکن ہمیں ایئر ٹائم نہیں دیا جارہا تھا، جبکہ کام کے بغیر تنخواہ لینا میرے لیے ناقابل قبول تھا۔‘