’دھرنا ختم نہ ہوا تو عدالتی احکامات پر عملدرآمد مجبوری ہوگی‘
وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے دارالحکومت میں مذہبی جماعت کے دھرنے کے شرکا کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ سب کو عدالتی حکم پر عمل کرنا چاہیے جبکہ اگر دھرنا ختم نہ ہوا تو حکومت عدالتی احکامات پر عملدرآمد کے لیے مجبور ہوگی۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ ’فیص آباد میں مذہبی جماعت کے دھرنے کی وجہ سے شہریوں کے معمولات زندگی متاثر ہو رہے ہیں اور جڑواں شہروں کے عوام دھرنے کی وجہ سے شدید مشکلات کا شکار ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’الیکشن ایکٹ میں ترمیم کی وجہ سے ختم نبوت کا تنازع کھڑا ہوا، سینیٹ میں انتخابی اصلاحاتی بل پر ترمیم کی مسلم لیگ (ن) نے حمایت کی، وزیر قانون زاہد حامد نے حلف نامے کی بحالی کی سب سے پہلے حمایت کی اور پارلیمنٹ نے حلف نامے کو اصل شکل میں بحال کردیا جس کے بعد اس معاملے پر تنازع کھڑا کرنا بے بنیاد ہے۔‘
احسن اقبال نے کہا کہ ’دھرنے کے شرکا نے پنجاب حکومت کو یقین دہانی کرائی تھی کہ اسلام آباد میں حالات خراب نہیں ہوں گے اور وہ ایک دو روز میں احتجاج رکارڈ کرا کر چلے جائیں گے تاہم دھرنے کے باعث ایک ہلاکت بھی ہوچکی ہے، عوام کو محصور کرنا نبی پاک ﷺ کی تعلیمات کے منافی ہے جبکہ قوم میں نفرت پیدا کرنا ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ختم نبوت پر ہمارے ایمان پر کوئی ذرہ برابر شک نہیں کر سکتا اور ہمارے ایمان کا فیصلہ قیامت کے دن اللہ نے کرنا ہے کسی فرد واحد کو نہیں، پارلیمنٹ خود ختم نبوت کے قانون کی محافظ ہے اور اس نے ماضی میں بھی اگر اس قانون میں کسی جگہ کمی تھی تو اسے بھی پورا کردیا۔‘
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد: دھرنے کے باعث شہریوں کے لیے اذیت ناک صورتحال
انہوں نے کہا کہ ’دھرنے کے شرکا ملک اور دنیا کو غلط پیغام دے رہے ہیں اور پاکستان کی دشمن ایجنسیاں اور لابیز دھرنے کی تصاویر کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہی ہیں، جبکہ دھرنے کے باعث عوام کا جینا اجیرن ہوگیا ہے۔‘
وزیر داخلہ نے کہا کہ ’پاکستان کے حالات کے پیش نظر مذہبی تناؤ پھیلانے سے گریز کرنا چاہیے، پیر کو اسلام آباد میں چین کا اعلیٰ سطح کا وفد آرہا ہے جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی دھرنے کو فی الفور ختم کرنے کی ہدایت کی ہے۔‘
انہوں نے دھرنے کے شرکا کو مذاکرات کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ ’دھرنے کے شرکا کے جذبات کی قدر کرتا ہوں لیکن لوگوں کو گمراہ نہیں کرنا چاہیے، اس سے کشیدگی ہوگی اور حالات خراب ہوں گے، ہم سب کو تحفظات کے باوجود قانون کے فیصلوں پر عمل درآمد کرنا چاہیے، دھرنے کے شرکا راولپنڈی کےعوام کی تکلیف دور کریں اور احتجاج ختم کریں۔‘
احسن اقبال کا شرکا سے دھرنا پُرامن طور پر ختم کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’ملک کو پر امن رکھنے کے لیے کئی جگہوں پر صبر اور ضبط سے کام لیا ہے، امید کرتا ہوں کہ دھرنے کے شرکا قانون کو ہاتھ میں نہ لیتے ہوئے پرامن طور پر منشتر ہوجائیں گے اور اگر ایسا نہ ہوا تو حکومت عدالتی احکامات پر عملدرآمد کرانے کے لیے مجبور ہوگی۔‘
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ضلعی انتظامیہ کو فیض آباد انٹر چینج پر دھرنے پر موجود مذہبی جماعتوں کے مظاہرین کو ہفتہ تک ہٹانے کا حکم دیا تھا۔
عدالت نے انتظامیہ کو ہدایات کیں کہ پرامن طریقے یا طاقت کا استعمال کرتے ہوئے، جیسا بھی ممکن ہو اسلام آباد کے فیض آباد انٹر چینج کو مظاہرین سے خالی کرایا جائے۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد: 'مظاہرین سخت نتائج کے لیے خبردار ہوجائیں'
جسٹس شوکت عزیز نے اپنے ریمارکس میں ضلعی انتظامیہ کی جانب سے اب تک اختیارات کا استعمال نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ضلعی انتظامیہ اختیارات کے استعمال میں ناکام رہی ہے۔
جسٹس شوکت عزیز نے کہا کہ ہمارے دین میں تو حکم ہے کہ جنگ کے دنوں میں بھی بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کو کچھ نہ کہیں۔
عدالت نے کہا کہ اسلام آباد میں دھرنے اور مظاہروں کے لیے جگہ مختص کی جا چکی ہے، ’دھرنے اور مظاہرے کے لیے ڈیموکریسی اینڈ اسپیچ کارنر مختص کیا گیا ہے‘۔
گذشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئین میں ختم نبوت کی شق کو مبینہ طور پر تبدیل کرنے والے ذمہ داروں کے استعفے کا مطالبہ کرنے والے مذہبی جماعتوں کے مظاہرین کو فیض آباد انٹر چینج جاری اپنا دھرنا فوری ختم کرنے کی ہدایت کی تھی۔
سنی تحریک اور تحریک لبیک کے سیکڑوں رہنماؤں، کارکنوں اور حامیوں نے اسلام آباد کے فیض آباد انٹرچینج پر گذشتہ ایک ہفتے سے دھرنا دے رکھا ہے۔
دھرنے میں شامل دونوں مذہبی جماعتوں کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ حال ہی میں ختم نبوت کے حوالے سے حلف نامے میں کی جانے والی تبدیلی کے ذمہ داروں کی نشاندہی کرتے ہوئے معطل کرے۔
خیال رہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی میں 50 لاکھ لوگ مقیم ہیں جن میں سے تقریباً 5 لاکھ کے قریب افراد روزانہ جڑواں شہروں کے 16 داخلی اور خارجی راستوں کو استعمال کرتے ہیں۔
راولپنڈی کے مقامیوں کی بڑی تعداد روزانہ مختلف وجوہات کی بنا پر اسلام آباد کا سفر کرتی ہے، کچھ لوگ تعلیم جبکہ کچھ لوگ روزگار کے لیے وفاقی دارالحکومت پہنچتے ہیں، اس ضمن میں انہیں اسلام آباد ہائی وے کا روٹ استعمال کرنا ہوتا ہے۔