نقطہ نظر

طاقت کے طوفان سے تیسری قوت تک!

مشرف صاحب کو یہ کہنے کی خواہش تھی ’اک بڑےخانداں کے ہم بھی ہیں‘، کیونکہ انکی پارٹی تو ’کنبہ چھوٹارکھیے‘ پر عمل کی مثال ہے

ہمارے ملک میں دو قوتوں کا تذکرہ بہت عام ہے، مردانہ قوت اور تیسری قوت۔

مردانہ قوت بڑھانے کے اشتہارات سے دیواریں سیاہ ہیں اور تیسری قوت کے نعرے ہر کچھ عرصے بعد سرخی بن کر سامنے آتے ہیں۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے علامہ طاہرالقادری اپنی پاکستان عوامی تحریک کو تیسری قوت قرار دینے پر مصر تھے، پھر وہ تین میں رہے نہ تیرہ میں۔ گنتی آگے بڑھا کے 62، 63 کا ورد کرنے لگے۔ کینیڈا میں رہتے ہیں، کبھی کبھی انقلاب لانے کے لیے پاکستان کے دورے پر آجاتے ہیں۔ انقلاب ساتھ ہی لانا ہوتا ہے مگر انقلاب کہتا ہے حضرت! پہلے آپ جائیں پیچھے پیچھے میں آرہا ہوں، یعنی تو چل میں آیا، مگر انقلاب نہیں آتا بلکہ اب تو اُنہیں کوئی خواب بھی نہیں آتا، ’کہاں رہ گیا‘ کہہ کر پھر انقلاب کو ڈھونڈنے کینیڈا چلے جاتے ہیں۔

اِن ’تیسری قوت‘ کی ساری قوت اِس آنے جانے میں خرچ ہوچکی ہے، باقی کی وہ تقریر پر صَرف کردیتے ہیں، پھر بیمار ہوجاتے ہیں۔ تیسری قوت کا نعرہ مارنے والے دوسرے قاضی حسین احمد تھے۔ انہوں نے جماعتِ اسلامی کو ’پاکستان اسلامک فرنٹ‘ کا معجون، پاسبان کا سفوف کِھلا اور شبابِ ملی کا شربت پلاکر قوی کرنا اور تیسری قوت بنانا چاہا، مگر زیادہ مقوی غذاؤں سے جماعتِ اسلامی کو ایسی بدہضمی ہوئی کہ اِس کے کئی راہ نما اور کارکن خارج ہوگئے۔

پڑھیے: ایم کیو ایم العالمی سے ایم کیو ایم الزمینی

اور اب پیش ہے پرویز مشرف کی تیسری قوت۔ بھئی جائے عبرت ہے، جو کبھی طاقت کا سرچشمہ بلکہ ایک پاکستانی فلم کے نام کی طرح ’طاقت کا طوفان‘ تھے، اب وہ تیسری قوت بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مشرف صاحب وقت ضائع کرنے پر یقین نہیں رکھتے، اِس لیے وہ کسی بنی بنائی جماعت کی سربراہی پر خود کو فائز کرنے کا اعزاز بخشنے کے خواہش مند رہے۔ اُنہیں توقع تھی کہ الطاف حسین کو مائنس کرکے اُنہیں پلس کیا جائے گا اور پھر ایم کیو ایم کے راہ نما اور کارکن ’ضرب‘ لگنے کے خوف میں لیفٹ-رائٹ کرتے اُن کے پیچھے چل دیں گے۔

اُن کا قصور نہیں، سابق جنرل شاید عادت سے مجبور ہیں۔ ویسے یہ سچ ہے کہ الطاف بھائی کی جگہ کوئی لے سکتا ہے تو وہ پرویز مشرف ہیں۔ ویسے دونوں کو موسیقی سے رغبت ہے، ایک کو گانے اور ناچنے کا شوق اور دوسرا طبلہ بجانے کا شائق، یہ ہوسکتا تھا کہ ’دونوں بھائی‘ جوڑی بنالیتے اور مشترکہ قیادت میں ’موسیقی قومی موومنٹ‘ بنا ڈالتے۔

لندن میں قیام اور مواصلاتی خطاب کے ذریعے قیادت بھی دونوں میں قدرِ مشترک ہے۔ مشرف صاحب کی دنیا اِسی اُمید پر قائم تھی۔ اِس اُمید کی روشنی میں وہ مہاجروں کی ایکتا کا راستہ ڈھونڈ رہے تھے، اُنہیں ایک ہونے کا مشورہ دے رہے تھے، اور جب ’سرپنچ‘ نے خلع یافتہ ایم کیو ایم پاکستان کو ونی کرکے نابالغ لڑکے پاک سرزمین پارٹی سے بیاہ دیا، تو مشرف صاحب کو بڑی خوشی ہوئی، یہاں تک کہ اُن کی طرف سے اپنوں اپنوں میں مٹھائی بھی بانٹ دی گئی۔ وہ پھر اُمید سے تھے کہ نیا جوڑا اُنہیں اپنا سرپرست تسلیم کرلے گا، یہ پریوار ہنسی خوشی رہنے لگے گا اور پرویز مشرف فخر سے کہہ سکیں گے،’اِک بڑے خانداں کے ہم بھی ہیں‘، ورنہ اُن کی لمبے چوڑے نام والی آل پاکستان مسلم لیگ تو ’کنبہ چھوٹا رکھیے‘ پر عمل کی مثال ہے۔

پڑھیے: 'ماسٹرز آف پولیٹیکل انجینیئرنگ'

مگر اِس بنتے پریوار پر فاروق ستار نے ایسا وار کیا کہ ایم کیو ایم پاکستان والے ’ستار صدقے لکھ وار صدقے‘ گاتے اُن پر صدقے واری ہوگئے۔ مصطفیٰ کمال کے آنسو جاری ہوگئے اور پرویز مشرف قیادت کی خواہش سے ہی انکاری ہوگئے۔ اب اُنہوں نے ’کراچی والوں‘ کو ہدایت جاری کی ہے کہ وہ خود کو پاکستانی کہیں۔ لیکن مشرف صاحب کی اِس فرمائش یا فرمان کو زیادہ سنجیدگی سے نہ لیا جائے تو بہتر ہے کیونکہ بات بس اتنی ہے کہ انہیں مہاجروں کا قائد بننا تھا، نہ بن سکے۔ اب وہ پاکستانیوں کے راہبر بننے چلے ہیں تو اُنہوں نے بڑے خلوص سے اردو بولنے والوں کو مشورہ دیا ہے کہ پاکستانی بن جائیں تاکہ مشرف صاحب دیگر پاکستانیوں کی طرح اُنہیں بھی اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے سرفراز کرسکیں۔

یہ الگ بات ہے کہ اُن کی زیرِ قیادت قائم ہونے والے ’23 سیاسی جماعتوں‘ کے ”پاکستان عوامی اتحاد“ میں مہاجر اِتحاد تحریک بھی شامل ہے! اب خدانخواستہ پرویز مشرف قول و عمل میں تضاد کا شکار نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اُن کے اتحاد میں شامل مہاجر اتحاد تحریک کُل ملا کر اپنے سربراہ ڈاکٹر سلیم حیدر پر مشتمل ہے، اب اتنے سے حجم کی جماعت خوردبین کے بغیر کیسے نظر آئے گی، اِس لیے وہ دیکھ نہ پائے۔

سابق صدرِ پاکستان کو یہ بھی علم ہوگیا کہ دورِ اقتدار میں اُن سے اتحاد کا شرف رکھنے اور اُن کی خاطر 12 مئی کا میلہ سجانے والی ایم کیو ایم لسانی جماعت ہے۔ چنانچہ وہ ایک لسانی جماعت کے سربراہ بن کر اپنی حیثیت کم نہیں کرسکتے۔ اب کوئی اُن سے پوچھے کہ پھر آپ کے اتحاد میں مہاجر اتحاد تحریک کیوں؟ تو یہ نری ہٹ دھرمی ہوگی۔ ارے لسانی کا مطلب اُن کے نزدیک وہ تھوڑی ناں ہے جو آپ لے رہے ہیں، کہنا وہ یہ چاہتے ہیں کہ اب ایم کیو ایم بھی منہ میں زبان رکھتی ہے، اور مشرف صاحب خاموش اکثریت کے نمائندے، کسی بولنے والے کی قیادت کرکے کیوں اپنی حیثیت کم کرائیں!

مشرف صاحب نے جو کنبہ جوڑا معاف کیجیے گا اتحاد بنایا ہے، اُمید ہے وہ تیسری قوت بن کر اُبھرے گا۔ اِس توقع کی بنیاد وہ برکت ہے جو اِس اتحاد کے قائم ہوتے ہی اِس پر نازل ہوئی ہے۔ اب دیکھیں اِس میں شامل اکثر جماعتوں کو لوگوں نے اِس خبر ہی سے جانا اور پہچانا کہ وہ بھی کوئی سیاسی جماعت ہیں جو پرویز مشرف کی سربراہی میں متحد ہوگئی ہیں۔

پڑھیے: وقت پر انتخابات کے انتظار میں کہیں کھیل سمٹ ہی نہ جائے

23 جماعتی اتحاد کا سنتے ہی لوگ مشرف صاحب کو ’تئیس مار خان‘ کہنے لگے تھے، لیکن مجلس وحدت المسلمین کے ترجمان نے کہہ دیا کہ وہ اِس اتحاد میں شامل نہیں، تو جو گھر سے نکلے کرنے چلے شکار اِن میں سے باقی رہ گئے 22، جن میں شامل ہیں

اب بتائیے، بچا کیا۔

اتحاد سے باہر بس مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی، تحریکِ انصاف، ایم کیو ایم پاکستان، جمعیت علماء اسلام، عوامی نیشنل پارٹی اور جماعت اسلامی جیسے چھوٹے چھوٹے گروہ رہ گئے ہیں، اُنہیں بھی چاہیے کہ اِس سے پہلے کہ اتحاد کے دفتر پر ’اسامی خالی نہیں‘ کا بورڈ لگے، اِس میں گُھس گُھسا کر اپنا مستقبل تاب ناک بنا لیں۔

یہ جو بعض لوگ اِس اتحاد میں شامل جماعتوں کا سائز دیکھتے ہوئے کھی کھی کھی کر رہے ہیں، اُنہیں بتادیں کہ ایک تو مشرف صاحب چھوٹے بڑے کی تمیز نہیں کرتے، یعنی چھوٹے بڑے میں امتیاز کے قائل نہیں، دوسرے وہ کہہ چکے ہیں کہ بڑی سیاسی جماعتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، اِس لیے اتحاد بناتے ہوئے انہوں نے ’ایٹم‘ کے حجم کی چھوٹی چھوٹی چھوٹی جماعتیں چُنی ہیں جو ٹوٹ ہی نہ سکیں۔ اِن اٹوٹ جماعتوں کا اتحاد جوڑ کر پرویز مشرف نے کم از کم اپنی ٹوٹی کمر کا علاج ضرور ڈھونڈ لیا ہے، جس کے بعد وہ کمر کس کر اپنے ’سب سے پہلے پاکستان‘ آسکیں گے۔

عثمان جامعی

عثمان جامعی شاعر، قلم کار، مزاح نگار، بلاگر، صحافی ہیں۔ آپ کی تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن میں فکاہیہ مضامین کا مجموعہ ’کہے بغیر‘، شعری مجموعہ ’میں بس ایک دیوار‘ اور کراچی کے حوالے سے ناول ’سرسید، سینتالیس، سیکٹرانچارج‘ شامل ہیں۔ آپ اس وقت ایک اخبار میں بطور ’سنڈے میگزین‘ انچارج ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔