دنیا

امریکی وزیر خارجہ کا میانمار مظالم کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ

روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی شفاف تحقیقات ضروری ہیں، ریکس ٹلرسن

امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے میانمار کی سول و عسکری قیادتوں سے ملاقات کے دوران روہنگیا میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی شفاف تحقیقات کا مطالبہ کردیا۔

واضح رہے کہ میانمار کی ریاست رخائن میں ہونے والے فوجی آپریشن اور قوم پرست مظالم کے باعث 6 لاکھ سے زاہد روہنگیا کے مسلمان نقل مکانی کر کے بنگلا دیش پہنچے ہیں۔

اقوام متحدہ کے اعلیٰ افسر نے میانمار آپریشن کو نسلی صفائی قرار دیا۔

میانمار کے سول ایڈمنسٹریشن کے ساتھ مشترکہ کانفرنس کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’میانمار میں سیکیورٹی فورسز کے آپریشن اور ہنگامہ آرائی سے متاثرہ افراد کے بارے میں کافی تشویش ہے، اس ضمن میں شفاف انداز میں تحقیقات کی ضرورت ہے‘۔

مزید پڑھیں: ’میانمار فوج روہنگیا خواتین کے ساتھ گینگ ریپ میں ملوث‘

قبل ازیں ریکس ٹلرسن نے میانمار کے آرمی چیف سے ملاقات کی جن پر میانمار مظالم کا الزام ہے۔

اقوام متحدہ کے سینئر افسر نے اتوار کے روز الزام عائد کیا کہ میانمار کی فوج نے آپریشن کے دوران سیکڑوں خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایا اور کئی افراد کو قتل بھی کیا، انہوں نے یہ مؤقف بنگلا دیش میں قائم روہنگیا کے مہاجر کیمپ کا دورہ کرنے کے بعد اختیار کیا۔

ٹلرسن نے میانمار حکومت کو قابل اعتماد تحقیقات کروانے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والے افراد کو سزا دینے کا مطالبہ کیا۔

اُن کا کہنا تھا کہ ’زیادتیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے متعلق سامنے آنے والے الزامات کی تحقیقات اور اُن میں ملوث افراد کو سزا دینا بے حد ضروری ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کو درپیش مشکلات

امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’میں نے ہر اجلاس میں میانمار حکومت سے آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا کیونکہ فوج کی ذمہ داری ہے کہ وہ حکومت کو مدد فراہم کرتے ہوئے ہر شہری کو تعاون فراہم کرے۔

دوسری جانب میانمار فوج کے سربراہ نے فیس بک پر اپنے پیغام میں کہا کہ ’ریکس ٹلرسن کو رخائن کی صورتحال کا اندازہ نہیں ہے کہ کیوں مسلمان وہاں سے بھاگ گئے‘۔

اُن کا مزید کہنا تھا کہ میانمار فوج اور حکومت، بنگلا دیش کی حکومت کو امداد فراہم کررہی ہے اور مہاجرین کی وطن واپسی کا عمل بھی شروع کردیا گیا ہے۔


یہ خبر 16 نومبر 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی