پاکستانی فلم 'ورنہ' پر ریلیز سے صرف تین دن قبل سینٹرل بورڈ آف فلم سنسرز (سی بی ایف سی) کی جانب سے پابندی عائد کیے جانے کے بعد کئی اہم سوالات نے جنم لیا ہے۔
اگرچہ اب تک شعیب منصور کی اس فلم پر لگنے والی پابندی کی وجہ سامنے نہیں آئی اور نہ ہی ان اعتراضات کی کھل کر وضاحت کی گئی جن کو بنیاد بنا کر اسلام آباد سینسر بورڈ نے یہ فیصلہ کیا، تاہم بعض مبصرین کا ایک عام خیال یہ ہی ہے کہ اس فلم میں 'ریپ کا سین' دکھائے جانے پر اسے نمائش کے لیے پیش کرنے سے روکا گیا ہے۔
لیکن، اب ایک بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں خواتین کے ساتھ زیادتی، تشدد اور انہیں جنسی طور پر ہراساں کرنے یا غیرت کے نام پر قتل کیے جانے کے بڑھتے ہوئے واقعات روز خبروں کی زینت بنتے ہوں، پھر وہاں ایک ایسی فلم کو ہی کیوں ریلیز سے روکا گیا، جس میں ایسے سماجی مسائل کی نشاندہی کی گئی۔
کمزور سچ اور طاقتور جھوٹ پر مبنی اس فلم کو 17 نومبر کو ریلیز ہونا تھا جس میں فلم اسٹار ماہرہ خان اور ہارون شاہد مرکزی کردار ادا کرررہے ہیں۔
’ورنہ‘ پر عائد پابندی کے حوالے سے ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز وائز' میں گفتگو کرتے ہوئے اسلام آباد لوک ورثا کی ڈائریکٹر اور سماجی کارکن فوزیہ سعید کا کہنا تھا کہ اب تک حکومت اور چاروں صوبوں کے سینسر بورڈز کا کوئی واضح بیان نہیں آیا، لیکن جو باتیں سننے میں آرہی ہیں ان میں پابندی کی وجہ 'ریپ کے سین' کو قرار دیا جارہا ہے اور کچھ لوگ اس کی وجہ فلم کا حساس موضوع بتا رہے ہیں۔
فوزیہ سعید نے کہا کہ 'یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب 2010 کے بعد تمام صوبوں کو خودمختاری حاصل ہے تو پھر صرف اسلام آباد سینسر بورڈ کے فیصلے کو اتنی اہمیت کیوں دی جارہی ہے اور سندھ اور پنجاب اس وقت تک ریلیز کی اجازت نہیں دے رہے جب تک وفاقی سینسر بورڈ فیصلہ نہیں کرے گا'۔
انہوں نے کہا کہ اگر تو ریپ کی وجہ سے ہی اس فلم پر پابندی عائد کی گئی تو ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ایسی کون سی فلم ہے جس میں آج تک 'ریپ کا سین' نہیں دکھایا گیا اور یہ ایک عام سی بات ہے جسے گذشتہ 30 یا 40 سالوں سے فلموں کا حصہ بنایا جارہا ہے۔