صحت

بلڈپریشر ریڈنگ میں دہائیوں بعد بڑی تبدیلی

ہائی بلڈ پریشر کا شکار رہنا جان لیوا امراض جیسے دل کی بیماریوں، ہارٹ اٹیک، فالج اور گردوں کے امراض کا خطرہ بڑھاتا ہے۔

ہائی بلڈ پریشر ایک ایسا مرض ہے جسے خاموش قاتل قرار دیا جائے تو کم نہیں کیونکہ یہ خون کی شریانوں، دل، دماغ، گردوں اور آنکھوں سمیت جسم کے دیگر اعضا پر دباﺅ بڑھاتا ہے۔

مسلسل ہائی بلڈ پریشر کا شکار رہنا جان لیوا امراض جیسے دل کی بیماریوں، ہارٹ اٹیک، فالج، دماغی تنزلی اور گردوں کے امراض کا خطرہ بڑھاتا ہے۔

مگر سوال یہ ہے کہ بلڈ پریشر یا فشار خون کا وہ کونسا نمبر ہے جو خطرے کی گھنٹٰ بجاتا ہے ؟ تو بلڈ پریشر ریڈنگ میں کئی دہائیوں بعد بڑی تبدیلی آگئی ہے۔

مزید پڑھیں : ہائی بلڈ پریشر کی 5 خاموش علامات

دہائیوں سے کہا جارہا ہے کہ اگرکسی شخص کے خون کا دباﺅ 140/90 سے اوپر ہوجائے تو وہ ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہے اور علاج شروع کرادینا چاہئے۔

مگر اب امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن اور امریکن کالج آف کارڈیالوجی نے بلڈپریشر ریڈنگ کے حوالے سے نئی گائیڈلائنز جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر کسی انسان کے خون کا دباﺅ 129/79 سے زیادہ ہے تو یہ ہائی بلڈ پریشر تصور کیا جائے گا۔

یعنی اگر بلڈ پریشر اس نمبر سے زیادہ ہو مگر140/90 سے کم، تو بھی یہ فشار خون کی پہلی اسٹیج تصور کی جائے گی جس کے نتیجے میں طرز زندگی میں تبدیلیاں بھی ضروری ہوتی ہیں جیسے زیادہ ورزش اور غذا میں تبدیلی۔

سننے میں تو کافی تشویشناک خبر ہے کہ بلڈ پریشر کے مریضوں کی تعداد اس سے بڑھنے کا امکان ہے مگر اچھی چیز یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں لوگ اپنے تحفظ کے لیے زیادہ جلد اقدامات کرنے لگیں گے اور زیادہ بڑے نقصان جیسے شریانوں کے مسائل، امراض قلب، ہارٹ اٹیک اور فالج وغیرہ سے بچنے کے امکانات بڑھالیں گے۔

درحقیقت اس مرض پر قابو پانے کے لیے انسان کو خود ہی محنت کرنا ہوتی ہے۔

لو بلڈ پریشر 60/90 سے کم کو سمجھ جاتا ہے اور صحت مند افراد کا بلڈ پریشر 80/120 سے کم ہونا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں : بلڈپریشر کی خاموش علامات اور بچاؤ کی تدابیر

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ہائی بلڈ پریشر اس وقت ہوتا ہے جب جسم زیادہ حرکت یا جدوجہد کررہا ہوتا ہے یعنی اسے زیادہ آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے۔

ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہونے کی شکل میں دل کے لیے کام کرنا زیادہ مشکل ہوجاتا ہے اور اسے جسم کے مختلف حصوں میں خون پہنچانے کے لیے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے وہ کمزور ہوجاتا ہے۔

اس کا نتیجہ دل کے مختلف امراض یا ہارٹ اٹیک کی شکل میں نکلتا ہے جبکہ خون کی شریانیں بھی سکڑنا یا اکڑنا شروع ہوجاتی ہیں۔

ماہرین کا مشورہ ہے کہ لوگ بلڈ پریشر کو نمک کے استعمال میں کمی لاکر، جسمانی وزن کم کرکے، روزانہ ورزش کرکے، کیفین کے کم استعمال، تمباکو نوشی سے گریز اور کم از کم 6 گھنٹے کی نیند لے کر قابو میں لاسکتے ہیں۔

زیادہ تشویشناک امر یہ ہے کہ ہائی بلڈ پریشر کے شکار اکثر افراد کو اس کی موجودگی کا علم ہی نہیں ہوتا اور اسی وجہ سے اسے خاموش قاتل بھی کہا جاتا ہے، یہ کسی بھی عمر کے افراد کو اپنا نشانہ بناسکتا ہے۔

تو زیادہ بہتر تو یہ ہے کہ عمر کی تیسری دہائی سے ہی بلڈ پریشر کے چیک اپ کو معمول بنالیا جائے۔