موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے نمٹنے کیلئے کیا اقدامات کیے جائیں؟
کاربن کے اخراج کے معاملے میں پاکستان کا شمار دنیا کے اُن 135 ممالک میں ہوتا ہے جو اس اہم معاملے میں اپنا کوئی کردار ادا نہیں کررہے، مگر ایشین ڈویلپمنٹ بینک (اے ڈی بی) کی جانب سے جاری فہرست کے مطابق پاکستان کا شمار اُن 10 ممالک میں بھی ہونے لگا جہاں موسمیاتی تبدیلیاں پیدا ہوئیں۔
ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی رپورٹ مطابق عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کے پاکستان پر وسیع اثرات مرتب ہوں گے جس کی وجہ سے فصلوں کی پیداوار، پانی کی فراہمی اور گرمی کی شدت میں بے پناہ اضافہ سامنے آئے گا۔
رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں کے خطراست سے بچنے کے لیے واضح پالیسی اور حکمتِ عملی مرتب کرنی ہوگی۔
ایشین بینک کے مطابق دنیا بھر میں ہونے والی تبدیلیوں کے بعد پاکستان کے موسم خصوصاً درجہ حرارت میں اضافہ دیکھنے میں آیا جہاں درجہ حرارت میں 0.5 سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوا اور یہ اضافہ گزشتہ 50 سالوں میں سب سے زیادہ ہے۔
پاکستان میں موسمی واقعات میں انتہائی اضافے کے بعد گزشتہ 30 برسوں کے مقابلے میں سالانہ ہیٹ ویوو دیکھنے میں آیا، سن 2015 میں اس کی وجہ سے صرف کراچی میں ہی 1200 افراد کی ہلاکت کے کیسز سامنے آئے۔
مزید پڑھیں: موسمیاتی تبدیلیاں دنیا کو 'قیامت' کے قریب لارہی ہے: سائنسدان
ایک اندازے کے مطابق ساحل سمندر کی سطح 10 سینیٹی میٹر بلند ہوئی جو گزشہ صدی میں سب سے زیادہ ہے علاوہ ازیں ساحل سمندر پر واقع علاقوں میں اس کے گہرے اثرات بھی سامنے آئے۔
رپورٹ کے مطابق پچھلے 50 برسوں میں سالانہ بارش بڑھ گئی جبکہ برفباری میں کمی ہوئی جس کی وجہ سے دریاؤں میں پانی کی مقدار کم ہوئی اور یہ بات آئندہ آنے والے وقتوں کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے،درجہ حرارت بڑھنے کی وجہ سے دریائے سندھ کا پانی مقررہ حد سے 50 فیصد بڑھ گیا جس کے باعث بڑے سیلاب کا خدشہ ہے۔
یاد رہے کہ 2010 میں غیرممکنہ بارشوں کے باعث آنے والے سیلاب کی وجہ سے تقریباً 1600 افراد ہلاک جبکہ ایک ارب ڈالر کے مالی نقصان کا سامنا بھی ہوا تھا، حالیہ تباہ کن موسمیاتی تبدیلیوں نے ثابت کیا کہ زرعی ممالک میں فصلوں کی پیداوار میں واضح کمی آئی جو بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے ناکافی ہے۔
پاکستان میٹرلوجیکل ڈپارٹمنٹ کے سابق ڈائریکٹر جنرل قمر زمان چوہدری نے اس حوالے سے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’موسمیاتی تبدیلی کے باعث پیدا ہونے والی پانی کی کمی کے منفی تاثرات سامنے آئیں گے اور اس کی وجہ سے فصلوں کی پیداوار بھی متاثر ہوسکتی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ غذائی، فصلوں خصوصاً چاول اور گندم کی پیدوار کے لیے پانی فراہم کرنے کے اقدامات کرے۔
یہ بھی پڑھیں: موسمیاتی تبدیلی: 'سالانہ 20 ارب ڈالر کا نقصان'
ورلڈ وائلڈ لائف کے پاکستان میں موجود سربراہ حماد نقی نے پیش گوئی کہ ہے کہ اگر پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے اقدامات نہیں کیے گئے تو آئندہ آنے والے وقتوں میں بڑا بحران پیدا ہوسکتا ہے، ہمیں پانی کو ذخیرہ کرنے کے طریقوں پر عملدرآمد کرنا ہوگا۔
اُن کا مزید کہنا تھاکہ ’پاکستان میں پانی کی کمی ہوگی اس لیے ہمیں اس کی اضافی مقدار کو رکھنا ہوگا، کچھ چیزوں پر قابو پانے سے صورتحال اچھی طرح کنٹرول میں کی جاسکتی ہے جیسے کہ جب ہمارے پاس پانی ذخیرہ نہ ہو تو گنے کی کاشت کو کم کردیں، اس ضمن میں ہمارے حکمرانوں کو جلدی بڑے فیصلے کرنے ہوں گے‘۔
کمزور حکمران اور کمزور قیادت
موسمیاتی تبدیلیوں کے متاثرہ علاقوں میں ہونے والی تحقیق پر ماہرین کا کہنا تھا کہ حکومتوں کو گلیشیئر اور پانی کو محفوظ بنانا ہوگا اور نصاب میں موسمیاتی تبدیلیوں کی اہمیت کے موضوعات کو شامل کر کے اور ان کو پڑھانے کے لیے باقاعدہ سائنسدانوں کو تعینات کرنا ہوگا۔
ہارورڈ یونیورسٹی کے تربیت یافتہ طارق بنوری کا کہنا ہے کہ یہ ایک سچ اور حقیقت ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے محفوظ رہنے کے لیے جو پالیسیاں مرتب کی گئیں اُن پر عملد رآمد ہوتا نظر نہیں آتا۔
اُن کا کہنا تھا کہ اتفاق سے ہمارے پالیسی بنانے والے عسکریت پسندو ں اور سیاسی عدم استحکام میں الجھے رہتے ہیں اس لیے اُن کے پاس موسمیاتی تبدیلیوں اور اس سے متعلق مسائل کے بارے میں سوچنے کا وقت نہیں ہے جبکہ پاکستان اُن ممالک میں شامل ہے جہاں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں پیدا ہوتی نظر آرہی ہیں۔
مسلم لیگ (ن) نے سن 2013 کے بعد حکومت سنبھالی اور 2015 میں پارٹی سے وفاداری کی بنیاد پر سینیٹر مشاہد اللہ کو موسمیاتی تبدیلیوں کی کمیٹی کا وزیر منتخب کیا جبکہ اُن کے پاس اس کا بالکل بھی تجربہ موجود نہیں ہے بعدازاں زاہد حامد کو اس شعبے کی سربراہی سونپ دی گئی اور انہوں نے دسمبر 2015 میں ہونے والی پیرس کانفرنس میں بھی شرکت کی۔
پیرس کانفرنس کے بعد پاکستان نے کیا حکمت عملی بنائی
زاہد احمد نے دو سال تک وزارت سنبھالی اس دوران انہوں نے حکومت کو پیرس معاہدے کے تحت کاربن کے اخراج کرنے سے متعلق اقدامات کے معاملے میں حکومت کی مدد کی، جس کے بعد حکومت نے صنعتوں میں گرین ہاؤس گیس کی صنعتیں بڑھانے کا فیصلہ کیا اور یہ 2030 تک نافذالعمل ہوجائے گا۔
گرین ہاؤس گیس کے منصوبے کی وجہ سے 2030 تک آلودگی کی شرح پاکستان سے 20 فیصد کم ہوجائے گی، اس ضمن میں پیرس معاہدے کے تحت پاکستان کو 40 کھرب ڈالر کی عالمی امداد بھی دی جائے گی۔
اسے بھی پڑھیں: پاکستان کے بیشتر شہروں میں اسموگ سے زندگی مفلوج
ناقدین کا کہنا ہے کہ پاکستان قدرتی آفات پر قابو پانے والا ادارہ دیگر ترقیاتی یافتہ ممالک کے مقابلے میں کم فعال ہے، اس نے اب تک قائد اعظم سولر پارک اور سندھ میں ہوائی فارم تیار کیے۔
زاہد حامد کے دور میں دیگر منصوبے متعارف ہوئے جن میں سرسبز پاکستان جس کے تحت 1 ارب درخت لگائے گئے اور مشترکہ مفاداتِ کونسل نے موسمیاتی تبدیلیوں کے ایکٹ 2016 کو منظور کیا جس کے تحت تمام جنگلات کی حفاظت کی جارہی ہے۔
وائلڈ لائف پاکستان کے نمائندے نقی کا کہنا ہے کہ چھوٹا سا ہدف حاصل کرنے سے صورتحال تبدیل نہیں ہوتی، ہمیں اس ضمن میں ہرچیز کے لیے واضح پالیسی مرتب کرنی ہوگی، اب تک جو پالیسیاں مرتب کی گئیں اُن کو کہاں نافذ کیا گیا؟
موسمیاتی تبدیلیاں حکومتی ترجیحات کیوں ہیں؟
پاکستان کی ماحولیاتی تبدیلیوں کی پالیسیاں تشکیل دینے والے افسر چوہدری کا کہنا ہے کہ ’حکومت نے بجٹ میں 8 فیصد رقم مختص کی ہے جو ایک اچھی رقم ہے، بعض علاقوں میں ایسی صورتحال پیدا ہورہی ہے جس کے لیے فوری طور پر عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔
سینیٹر خان کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے صوبائی حکومتوں کو اختیارات دینے پڑیں گے تاکہ وہ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے پالیسی مرتب کریں مگر صورتحال اس کے برعکس ہے کہ وفاقی اداروں اور صوبائی حکومتوں کے مابین تنازعات جاری ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے میری ماتحت وزارت نے آزاد کشمیر، خیبرپختونخواہ، گلگت بلستان اور پنجاب کے لیے پالیسی مرتب کی ہے تاکہ ہم صوبائی اور وفاقی حکومت کے درمیان پیدا ہونے والے اختلافات کو حل کرسکیں۔
اسے بھی پڑھیں: اسموگ کے خلاف نامناسب اقدامات، صوبائی حکومت سے جواب طلب
واضح رہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے پنجاب میں ہونے والی فوگ سے نمٹنے کے لیے عملی اقدامات نہ کرنے پر 21 اراکین پر مبنی موسمیاتی تبدیلیوں پر نظر رکھنے والی کمیٹی تشکیل دی ہے جو پنجاب حکومت کی جانب سے کیے جانے والے ناکافی انتظامات کی نشاندہی کرے کے سرکاری محکموں سے عملدرآمد کروائے گی۔
اس کمیشن کا حصہ بننے والے نقی کا کہنا ہے کہ ’ شعبہ زراعت کا دعوی ہے کہ وہ خالی زمین پر درخت اگا کر جنگل بنائیں گے اسی طرح دیگر ادارے بھی صرف باتیں کرتے ہیں مگر کسی قسم کے کوئی عملی اقدامات نظر نہیں آتے‘۔
یہ خبر 15 نومبر 2017 کو ڈان اخبار شائع ہوئی