پاکستان

سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ ججز کے تجزیئے کیلئے پیش

لاہور ہائیکورٹ کےفل بینچ نےججز کےچیمبرمیں رپورٹ کا انفرادی جائزہ لیا اورحکومت پنجاب کے نمائندے کو دستاویزات واپس کردیں۔

لاہور: پنجاب کی صوبائی حکومت نے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ لاہور ہائی کورٹ کے فل بینچ کے سامنے بند کمرے میں پیش کردی تاکہ ججز مذکورہ رپورٹ کا انفرادی جائزہ لے سکیں۔

اسپیشل ہوم سیکریٹری ڈاکٹر شعیب نے عدالت کے حکم پر حکومت کی جانب سے دائر کی گئی انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت کے دوران مذکورہ رپورٹ پیش کی، جس میں حکومت نے عدالت کے مذکورہ رپورٹ کو منظر عام پر لانے کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔

اس سے قبل سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ہلاک ہونے والے افراد کے ورثا کی نمائندگی کرنے والے بیرسٹر سید ولی ظفر نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے جسٹس نجفی کی رپورٹ کو شائع کرنے کے مطالبے کو دہرایا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کیس میں پولیس نے دن کی روشنی میں 13 نہتے افراد کو ہلاک اور سیکڑوں خواتین اور بچوں کو زخمی کیا۔

مزید پڑھیں: ’سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ غیر متعلقہ ہے'

انہوں نے موقف اختیار کیا کہ حکومت پنجاب نے عوام کے ممکنہ دباؤ کے پیش نظر سانحے کے ذمہ داران کا تعین کرنے کے لیے جوڈیشل ٹریبیونل تشکیل دیا تھا، ان کا کہنا تھا تاہم حکومت نے اس کی رپورٹ کو شائع کرنے سے انکار کیا جس میں سانحہ کی ذمہ داری صوبائی حکومت کے اعلیٰ حکام پر ڈالی گئی تھی۔

بیرسٹر ظفر کا کہنا تھا کہ حکومت کا یہ موقف کہ انہیں رپورٹ کو خفیہ رکھنے کا حق ہے، یہ حیرت انگیز ہے کیونکہ حکومت کی تمام معلومات عوام کی ملکیت ہیں، انہوں نے زور دیا کہ یہ جمہوریت کا بنیادی اصول ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’حکومت یہ دعویٰ نہیں کرسکتی کہ نجفی رپورٹ صرف حکومت کے لیے بنائی گئی تھی‘۔

خیال رہے کہ قانونِ شہادت آرڈر 1984 کے مطابق اگر ایک رپورٹ ٹریبیونل کی جانب سے تشکیل دی گئی ہے تو یہ عوامی دستاویز ہے اور حکومت اس بات کی پابند ہے کہ وہ اسے شائع کرے۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ ماڈل ٹاؤن: باقر نجفی رپورٹ منظرعام پر لانے کا حکم جاری

بیرسٹر ظفر نے آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت آزادی اظہار رائے کا حوالہ دیتے ہوئے زور دیا کہ اگر معلومات کی فراہمی پر پابندی عائد کی جائے گی تو انہیں یہ حق کیسے حاصل ہوگا۔

یاد رہے کہ بیرسٹر ظفر اپنے دلائل 16 نومبر کو بھی سماعت کے دوران جاری رکھیں گے۔

بعد ازاں لاہور ہائی کورٹ کے فل بینچ میں شامل ججز جسٹس عابد عزیز شیخ، جسٹس سید شاہ زیب علی رضوی اور جسٹس قاضی محمد امین احمد نے رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد اسے اپیشل سیکریٹری کو واپس کردیا۔


یہ رپورٹ 15 نومبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی