آج اس دور میں بھی، جب سائنس اور ٹیکنالوجی اپنے عروج پر ہے، انسان اپنے گردونواں میں نظر دوڑاتا ہے تو اُسے یہ کائنات پراسراریت کا گھر معلوم ہوتی ہے اور وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اِس کائنات کے بارے میں جاننے کے باوجود بھی وہ اِس کے بہت سے رازوں سے ناواقف ہے۔
ہر نئی دریافت اُسے حیرت زدہ کر دیتی ہے اور اُس شخص میں اس چیز کے بارے میں مزید جاننے کی خواہش جنم لیتی ہے۔ یہ "خواہش" ہی تو ہے جس کی وجہ سے آج سائنسی علم میں قدرِ وسیع ہوگیا ہے اور اسی وجہ سے آج مستقبل کے لئے تَگ و دو جاری ہے۔
زمین پر اور اس کے گرد گھومتی دوربینیں آسمان کے مختلف حصّوں میں موجود ستاروں کا بغور جائزہ لیتی رہتی ہیں اور اگر کسی ستارے کی چمک میں ذرا سا بھی بدلاؤ محسوس ہو تو اس بدلاؤ کی وجہ تلاش کرنے کے لئے سائنسدان جُڑ جاتے ہیں۔
سائنسدانوں نے ستاروں کی روشنی میں بدلاؤ آنے کی وجوہات ١٩٩٠ء کے بعد سے تلاش کرنا شروع کیں اور اُس کے متاثرکن نتائج برآمد ہوئے۔ اس سے ہم زمین پر رہنے والی مخلوق کو اس بات کا علم ہوا کہ صرف ہمارا سورج ہی پوری کائنات میں واحد ستارہ نہیں ہے جس کے گرد سیارے گردش کر رہے ہیں بلکہ آسمان میں جتنے بھی ستارے ہمیں نظر آتے ہیں وہ بھی سورج ہیں اور ان کے گرد بھی سیارے موجود ہیں۔
آج سائنسدانوں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ "ہمیں یقین ہے کہ کائنات کے تمام ستاروں کے گرد کم از کم ایک سیارہ تو چکر لگا رہا ہے"۔ اس بات سے یہ سوال ذہن میں اُبھرتا ہے کہ کیا کوئی ایسا سیارہ بھی ہوگا جو زمین جیسا ہوگا؟ تو جی ہاں، ایسے بہت سے سیارے دریافت کر لئے گئے ہیں جن کو "دوسری زمین" بھی کہا جا سکتا ہے اور بہت سو کی دریافت باقی ہیں۔